عالمی موسیقی کا المیہ
کون ہے جنھیں گانا یا رقص پسند نہیں- بہت سے گیت ہے جو بچوں کی پیدائش پر گائے جاتے ہیں اور موت کے موقع کے لئے بھی خوبصورت گیت موجود ہیں- فتح کے موقع پر رقص کئے جاتے ہیں- جنگ کے خلاف بھی گیت گائے جاتے ہیں اور ایسے بھی گیت موجود ہیں جو لرزہ خیز ہیں، خون کو منجمد کردیتے ہیں اور کٹھور ہیں جو اس عقیدے سے گائے جاتے ہیں کہ یہ حب الوطنی کا تقاضہ ہے-
انقلابی موسیقی کامریڈز کے جذبات کو اکساتی ہے اورانھیں شوگر کینڈی ماونٹین کے خواب دکھاتی ہے- ہٹلر نے ویگنر کی سرپرستی کی- اس کے مخالفین کیبرے شوز دیکھا کرتے تھے جس سے اسے نفرت تھی-
شیما کرمانی کراچی میں اور ملکہ سارا بھائی احمد آباد میں جمہوریت کے لئے رقص کرتی ہیں- دہلی کی سونل مان سنگھ جو بھارت ناٹیم کے لئے مشہور ہیں اس بات پر بیحد خوش تھیں کہ ان کی نریندرا مودی سے خاص ملاقات ہوئی تھی-
یہ ایک جھوٹ ہے کہ افغان طالبان اور خلیجی ممالک کے عرب جو کٹر مذہبی ہیں رقص اور موسیقی سے پرہیز کرتے ہیں- کابل کے سابق مجاہدین اکثر و بیشتر سوویت عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تازہ ترین ہندوستانی فلمیں دیکھا کرتے تھے-
نچلے طبقے کی خلیجی ممالک کی عرب عورتیں اپنے کٹرمذہبی مالکوں کے سامنے بالوں کو ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک جھٹکے دے دے کر ناچتی تھیں جو بڑا ہی بے کیف ہوتا ہے- موصل کے سلفیوں کا پرتشدد ویڈیو موسیقی سے شروع ہوتا ہے-
1942 کی فلم کاسا بلانکا جو نازیوں کے خلاف محبت کی کہانی ہے اس کے گانے، 'Die Watch am Rhein' کو جرمن سپاہی رکس بار میں گایا کرتے تھے اور اسکے بعد فرانسیسی گیت Marseillaise انھیں بہا لیجاتا تھا-
دونوں ہی میں مقناطیسی کشش تھی اور یہی موسیقی کا المیہ ہے- گو کہ جرمن گیت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو یقیناً بھاتا ہوگا جو ہٹلر کے پرستار تھے اور یہی ایک الٹرا نیشنلسٹ پارٹی ہے جو آج بھی ہر سال ہتھیاروں کی یا شاسترا پوجا کرتی ہے-
جرمن رائن گیت دائیں بازو کے قوم پرستوں کے لئے رول ماڈل بن گیا:
"The cry resounds like thunder's peal,
Like crashing waves and clang of steel:
The Rhine,the Rhine, our German Rhine,
Who will defend our stream, divine?"
"چیخ میں بادلوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے
موجیں ٹکراتی ہیں جیسے فولاد کی کھنکھناہٹ:
رائن، رائن ہمارا جرمن رائن،
ہمارے ملکوتی دریا کی حفاظت کون کرے گا؟"
پیٹ سیگر جن کا انتقال ہوچکا ہے اور جو جنگ کی مخالفت میں گیت گایا کرتے تھے،جنوبی ایشیا کو نا انصافیوں اور جنگ کے خلاف دو نغمے دیئے جو بہت مقبول ہیں اور لوگ انھیں بہت شوق سے سنتے ہیں:
'We shall overcome' and 'Where have all the flowers gone?'
ان کی پہلی ریکارڈنگز جو نیویارک میں 1940 میں المنیک سنگرز کے ساتھ ہوئیں امریکہ کے مزدور کارکنوں کی کئی نسلوں کا تھیم سانگ بن گئیں- اس گروپ نے جنگ کے خلاف بھی کئی گیت ریکارڈ کرائے جو اس وقت شرمندگی کا باعث بن گئے جب نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کردیا، جاپانیوں نے پرل ہاربر پر بمباری کی اور امریکہ کے بائیں بازو کے لوگ محب وطن بن گئے- میں سمجھتا ہوں کہ سیگر کو اپنے امن کے موقف سے کسی حد تک پیچھے ہٹنا پڑا ہوگا تاکہ وہ جنگ سے نبرد آزما محب وطن افراد کا اس ہنگامی صورتحال میں ساتھ دے سکیں-
گہری نظریاتی تقسیم کے دونوں جانب آرٹ اچھا اور برا ہوسکتا ہے اور یہی بات ہم رقص یا موسیقی کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں- وی ڈی پالوسکر نے 'وندے ماترم' کی بیحد جذباتی کمپوزیشن آزادی سے پہلے کانگریس کے ایک اجلاس میں گائی تھی جس میں ہندو مذہبی رنگ بیحد نمایاں تھا، جبکہ حالیہ برسوں میں ہندو مذہب کے احیا کو نریندر چنچل اور انوپ جلوٹا جیسے بے سرے گلوکاروں کے حوالے کردیا گیا ہے-(آپ کو اسمیں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان بنیادی ثقافتی تفریق نظر آئیگی----کانگریس نے براہمنی اشرافیہ کی اعلیٰ جمالیاتی حس کو فروغ دیا تھا جبکہ بی جے پی نے بھڑکیلی چمک دمک کو جو محلہ کی دوکانوں کے زرق برق کلچر کے مطابق تھا-
موسیقی بعض اوقات ایک فریضہ بن جاتی ہے- اکثر ہندوستانیوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے سنسکرت الفاظ سے بھرپور قومی ترانہ کا مطلب کیا ہے- بہت سے پاکستانیوں کو حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترک-فارسی الفاظ سے بھرے ہوئے اپنے قومی ترانے کو سمجھنے میں دقت ہوتی ہے- تب بھی جس جوش و خروش سے انھیں گایا جاتا ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے-
موسیقی کے اس حیران کن جوش و خروش میں جسے حب الوطنی قرار دیا جاتا ہے مجھے ٹیگور کا کمپوز کیا ہوا سری لنکا کا قومی ترانہ بہت پسند ہے کیونکہ اس میں ایک نغمگی ہے----'نامو نامو ماتا'-----اگرچہ مجھے سنہالی فوجیوں کے ساتھ لب ہلانے سے نفرت ہے جنھوں نے اپنے تامل ہم وطنوں کا ریپ کیا تھا اور انھیں قتل کیا تھا-
شوبھا مڈگل وہ سب کچھ گاتی ہیں جو انھیں ہندوستانی موسیقی میں پسند ہے- ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں وہ خیال، ٹھمری، اور ٹپا کے علاوہ بہت سارے روایتی گیت بھی گاتی ہیں جو اترپردیش میں شادی اور بچے کی پیدائش کے موقع پر گائے جاتے ہیں- حال ہی میں وہ سان فرانسسکو کے ایک مندر میں ایک مجمع کے سامنے گانے جارہی تھیں کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کے ایک حمایتی نے انھیں برا بھلا کہنا شروع کیا-
مڈگل نے اور بہت سے جمہوریت پسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے مودی کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی-انھیں بعد ازاں، حال ہی میں اس کنسرٹ سے خارج کردیا گیا جو دہلی کا ایک ایف ایم ریڈیو ورلڈ میوزک ڈے کے سلسلہ میں منعقد کررہا تھا-
میں نہیں جانتا کہ مودی کو موسیقی سے لگاؤ ہے یا نہیں- لیکن ایک خبر کے مطابق انھوں نے ساورکر کی یاد میں گائے گئے سی ڈیز کا افتتاح کیا تھا، جو ہندو احیائے مذہب کے ایک بیحد زہریلے ہیرو ہیں-ساورکر کو وہ لوگ بھی اپنا ہیرو سمجھتے ہیں جو مہاتما گاندھی کے قاتل کو -----جو ساورکر کا ایک پیرو ہے محب وطن سمجھتے ہیں- ساورکر کے بعض چاہنے والوں پر الزام ہے کہ انھوں نے سمجھوتا ایکسپریس پربم سے حملہ کیا تھا حالانکہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا کیونکہ دو قومی نظریہ انھوں نے ہی تجویز کیا تھا- جناح نے تو اسے صرف آگے بڑھایا تھا-
مڈگل اکیلی نہیں ہیں جنھیں ان کی موسیقی کی سزا دی گئی- مقبول ترین اسٹار کشور کمار کو اس لئے تنہا کردیا گیا کیونکہ انھوں نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی- پابلو نرودا کے قریبی دوست گلوکار وکٹر جارا کو جن کی بڑی عزت تھی پینوشے نے مروادیا تھا-
اور ضیاء کے مذہبی دور حکومت میں کتنے فنکاروں کو نشانہ بنایا گیا؟
مجھے یاد ہے کہ میں نے دبئی میں مرحومہ ملکہ پکھراج کا ایک اخبار کے لئے انٹرویو کیا تھا- انھوں نے زور دیکر کہا تھا کہ ہندوستانی خیال کو پاکستانی خیال نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ دو ایسے ملک ہیں جو ایک مشترکہ ورثہ رکھتے ہیں- وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ ہندوستانی موسیقی کے سرگم سا، رے، گا، ما، پا دھا، نی، سا جسکی جڑیں سنسکرت میں پیوست ہیں اردو حروف تہجی میں نہیں گائے جاسکتے- "آپ سرگم کو الف، بے، پے تے میں نہیں گاسکتے،" انھوں نے کہا تھا- ضیاء نے اس وجہ سے اور دوسری بہت ساری وجوہات سے ان پر پابندی لگا دی تھی-
"کیا تاریک دور میں گیت زندہ رہینگے؟ ہاں،گیت گاتے جاتے رہینگے،البتہ تاریک دنوں کے بارے میں"- برتولت بریخت نے لکھا تھا-
ترجمہ: سیدہ صالحہ