دوطرفہ سیکیورٹی معاہدہ، ملا عمر کا افغان حکمرانوں کو انتباہ
کابل: افغانستان کے روپوش رہنما نے جمعہ کے روز خبردار کیا ہے کہ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کا مطلب ہوگا کہ جنگ جاری رہے گی۔
افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کے اس بیان سے امن مذاکرات کے لیے کی جانے والی امیدوں کو دھچکا لگا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاہدے سے ہزاروں امریکی فوجیوں کو اس سال اواخر کے بعد افغانستان میں قیام کی اجازت ملے جائے گی۔
امریکا اور نیٹو اتحادی اپنی جنگی کارروائیوں کو بتدریج کم کرتے جارہے ہیں، لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ کچھ بقایا فوج افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت میں مدد دینے کے لیے چھوڑ جائیں، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ سکیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کی حکومتی افواج جاری بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں اور اگر افغانستان میں سیکیورٹی خلاء پیدا ہوگیا تو القاعدہ کو حیاتِ نو مل سکتی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا ہے کہ وہ دس ہزار کے قریب امریکی فوجیوں کو افغانستان میں مزید دو سال کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں۔
افغان حکومت نے ایک سیکیورٹی معاہدے پر اصولی طور پر اتفاق کیا تھا، جس سے امریکیوں کو مزید قیام کی اجازت مل جائے گی، تاہم اس معاہدے پر اب تک دستخط نہیں کیے گئے ہیں۔
سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی کی جگہ لینے کے دونوں امیدواروں نے اس معاہدے پر دستخط کر نے کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ انتحابی نتائج پر پیدا ہونے والے تنازعے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
ملّا محمد عمر نے ان دونوں امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط نہ کریں۔
رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام اور عیدالفطر کی تعطیلات کے آغاز کے موقع پر ان کا ایک پیغام جاری کیا گیا ہے۔ یہ پیغام دری، عربی، انگلش اور پشتو زبان میں ترجمے کے ساتھ جاری کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا ’’ہمیں افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کا اس وقت یقین آئے گا، جب تمام غیرملکی حملہ آور افغانستان سے باہر چلے جائیں گے۔ محدود تعداد میں فوجیوں کی موجودگی کو جوبھی عنوان دیا جائے، اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قبضہ اور جنگ جاری رہے گی۔‘‘
افغانستان میں پُرتشدد کارروائیاں جاری ہیں، جس کا ایک مظاہرہ جمعہ کے روز دیکھنے میں آیا ۔ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق طالبان باغیوں نے مغربی صوبے غور میں ایک منی بس کو روک کر چودہ شیعہ ہزارہ مسافروں کی شناخت کے بعد ان کے ہاتھوں کو باندھ کر انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا، اور سڑک کے کنارے چھوڑ گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں تین خواتین بھی شامل تھیں۔
طالبان دیگرسنی انتہاپسند گروہوں کی طرح ملک کی اقلیتی شیعہ برادری کو کافر قرار دیتے ہیں اور ماضی میں خودکش دھماکوں اور دیگر حملوں میں ہزارہ برادری کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ملّا عمر کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے، جبکہ بین الاقوامی افواج پہلے ہی بڑے پیمانے پر پس منظر میں چلی گئی ہیں اور افغان افواج نے اس جنگ کی قیادت سنبھال لی ہے، جس سے طالبان کی اس دلیل کو ثابت کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ ایک غیرملکی فوج کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔تاہم اس دوران افغان پولیس اہلکاروں، فوجی سپاہیوں اور عام شہریوں پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
طالبان کے سربراہ نے سرکاری اہلکاروں اور فوجیوں پر حملوں کی حمایت کا اعادہ کیا، ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔
لیکن انہوں نے اپنے پیروکاروں پر زور دیا کہ وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ عام لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کریں۔
انہوں نے امن عمل کا ذکر نہیں کیا، جو ویسے بھی نئے صدر کے انتخاب تک عملی طور پر معطل ہے۔
ملّاعمر نے اسرائیل کے فضائی حملوں کی بھی مذمّت کی، جس کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں