• KHI: Maghrib 6:50pm Isha 8:07pm
  • LHR: Maghrib 6:25pm Isha 7:48pm
  • ISB: Maghrib 6:31pm Isha 7:57pm
  • KHI: Maghrib 6:50pm Isha 8:07pm
  • LHR: Maghrib 6:25pm Isha 7:48pm
  • ISB: Maghrib 6:31pm Isha 7:57pm

ساغر صدیقی : ایک دل شکستہ شاعر

شائع July 31, 2014
وہ خوبصورت نظمیں لکھتے، پھر بلند آواز میں خالی نگاہوں سے پڑھتے، پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ہوتیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
وہ خوبصورت نظمیں لکھتے، پھر بلند آواز میں خالی نگاہوں سے پڑھتے، پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ہوتیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

کوئی تین سال پہلے میں ایک کزن کی، اوریجنس آف پاکستان نیشنل اینتھم (Origins of Pakistan National Anthem) کے تھیسس میں مدد کر رہا تھا- قومی ترانے کے تاریخی اور سیاسی پسمنظر پر ایک تفصیلی جائزہ ترتیب دینے کہ دوران مجھے ایک کتاب کے فٹ نوٹ میں ساغر صدیقی کا نام لکھا نظر آیا-

ترانے کی موسیقی، پاکستان کے قیام کے دو سال بعد سنہ انیس سو انچاس میں ترتیب دی گئی- تاہم، اس کے بول انیس سو باون میں شاعر حفیظ جالندھری نے لکھے- اور انیس سو چون میں حکومت پاکستان اور ریاست نے اسے منظور کیا-

جس کتاب کے فٹ نوٹ پر ساغر صدیقی کا نام لکھا تھا اس میں بہت ایسے خواتین اور مردوں کے بارے میں تفصیلات درج تھیں جنہوں نے سنہ انیس سو سینتالیس اور انیس سو چون کے بیچ قومی ترانہ لکھنے کی کوشش کی- لیکن میں ساغر صدیقی کے نام کی طرف کیوں متوجہ ہوا؟ کیونکہ میں انہیں ایک ایسے مشہور شاعر کے طور پر جانتا تھا جو انتہائی غربت کی حالت میں فوت ہوۓ-

ان کے بارے میں، میں بس اتنا ہی جانتا تھا اور ساتھ انکی نظموں کے کچھ اشعار جو اپنے کالج کے دوستوں سے کوئی دو دہائی پہلے سنے تھے-

کتاب میں انکا نام پڑھنے کے بعد انکے چند اشعار مجھے یاد آۓ، خاص کر یہ شعر:

'دل ملا اور غم شناس ملا پھول کو آگ کا لباس ملا ہر شناور بھنور میں ڈوبا تھا جو ستارہ ملا اداس ملا '

ان الفاظ کے یاد آنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ایک ایسا شاعر جو اپنے مایوس کن تصورات اور شکستہ دلی کے لئے جانا جاتا تھا ایک ایسے ملک کا قومی ترانہ کیوں لکھنا چاہتا تھا جہاں بلآخر وہ غربت کے ہاتھوں مارا گیا؟

ساغر کا کام تو باسانی مل جاتا ہے لیکن انکی زندگی کے بارے میں معلومات بہت کم دستیاب ہیں، سواۓ انیس سو چوہتر میں ان کے انتقال پر اخبارات میں چند سرخیوں کے-

دو ہزار بارہ میں، جب میں اسلام آباد ایک میڈیا کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تو میرا تعارف وہاں ایک صاحب سے کرایا گیا جو ساغر کے ایک کزن کے بیٹے تھے- جناب ایک رٹائرڈ بیوروکریٹ تھے مگر ساتھ ہی اردو ادب میں بھی دلچسپی رکھتے تھے-

ان سے ملتے ہی میں نے ساغر کے قومی ترانہ لکھنے کے شوق کی بابت دریافت کیا- ان کے مطابق ساغر کا تعلق انبالہ کے ایک انڈین ٹاؤن کے خوشحال مڈل کلاس گھرانے سے تھا-

وہ غیر معمولی طور پر زہین تھے بچپن ہی سے شاعری کرنے لگے- انیس سال کی عمر میں وہ پاکستان (سنہ انیس سو سینتالیس) ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہو گۓ-

وہ ایک حساس اور با صلاحیت نوجوان تھے جو ایک نئی نویلی ریاست کے شہری ہونے پر پرجوش تھے، اور یہی بات قومی ترانہ لکھنے کا محرک بنی-

وہ حکومت سے اپنا قومی ترانہ تو منظور کروانے میں ناکام رہے، لیکن اس کے بعد انہوں نے ایک ادبی میگزین پبلش کیا-

میگزین بہترین تھا لیکن زیادہ بکا نہیں- مایوس ہوکر ساغر نے اسے بند کردیا- انڈیا سے پاکستان ہجرت کر آنے والے دیگر لوگوں کے برعکس ساغر نے ہندوؤں، سکھوں کی چھوڑی ہوئی جاگیریں حاصل کرنے کے لئے حکومت سے کوئی درخواست نہ کی-

اس کی بجاۓ وہ سستے ہوٹلوں میں رہنے کو ترجیح دیتے- مختلف میگزینوں کے لئے نظمیں لکھ کر انہیں جو قلیل آمدنی ہوتی اسی سے اپنے کمرے کا وہ کرایہ ادا کرتے-

ایک دہائی کے اندر اندر ہی پاکستان کے لئے ان کے جوش و جذبے پر پانی پھر گیا جب انہوں نے ٹیلنٹ کی بجاۓ کرپشن، اقرباء پروری اور معمولیت کو فروغ پاتے دیکھا-

کئی پہلوؤں سے شکستہ ساغر ایک ایسے موڑ پر پنہنچ گۓ جہاں لاہور کی گھٹیا وہسکی بھی انہیں اس بدعنوان دنیا سے بیگانہ کرنے میں ناکام رہی اور تب ہی انہوں نے مارفین (morphine) دریافت کی-

وہ یہ زہر باقاعدگی کے ساتھ لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے بدعنوان خاکروبوں سے خریدنے لگے-

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نشے کے لئے پیسے مانگنے وہ اپنے ہمعصر شاعروں کے دروازوں تک پہنچ گۓ، جو اس دبلے پتلے، کانپتے نشئی کو چند روپے دے تو دیتے لیکن اس شرط پر کہ ساغر ان کے لئے پہلے ایک دو نظمیں لکھے-

وہ نظمیں، شاعر ادبی رسالوں کو مہنگے داموں بیچتے اور بعض تو اس حد تک چلے گۓ کہ انہیں اپنے نام سے بھی چھپوا دیا!

جب دوست و اغیار سب ہی اردو ادب میں ان کے ٹیلنٹ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے لگے تو یہ دیکھ کر ساغر مایوسی کا شکار ہوگئے-

جلدی ہی سستے ہوٹلوں کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور وہ لاہور کی سڑکوں پر آگئے-

ان کے ایک فین نے ایک بار لکھا تھا کہ (سنہ انیس سو چھیاسٹھ) میں جب وہ لاہور کی سرکٹ روڈ سے گزر رہے تھے تو انکی کار میں موجود ریڈیو پر ساغر کی غزل چل رہی تھی-

جس وقت وہ فین ساغر کے الفاظ پر غور کر رہا تھا اسکی نظر سڑک کے کنارے چلتے ہوۓ، بکھرے بالوں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک دبلے پتلے شخص پر پڑی- وہ شخص ساغر تھا-

جب دنیا اس باصلاحیت انسان کو بھول گئی، ساغر نے بھی دنیا کو تیاگ دیا-

سالوں وہ اسی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتے اور سوتے رہے، لوگ انہیں فقیر یا بھکاری سمجھ کر کھانے کو کچھ دے جاتے-

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حال میں بھی وہ زبردست شاعری کرتے رہے حالانکہ ان کے لئے خود اپنے مونہہ سے ایک باقاعدہ جملہ ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا-

وہ خوبصورت نظمیں لکھتے، اور پھر انہیں بلند آواز میں خالی نگاہوں کے ساتھ پڑھتے، پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ہوتیں، اس کے بعد کاغذ کے پرزوں کا ڈھیر بنا کر اسے آگ لگا دیتے-

کئی سال تک ایک آوارہ کتا انکا ساتھی بنا رہا، انہیں جو کچھ کھانے کو دکان داروں سے ملتا دونوں بانٹ کر کھاتے- کتا ان کے ساتھ ہی رہتا اور ان کے ساتھ ہی سوتا، سڑک کے جس کونے کو ساغر اپنا بسترا بناتے وہ بھی وہیں پڑ جاتا-

پندرہ سال تک مارفین کے نشے، ڈپریشن اور آوارگی کی زندگی نے آخر اپنا رنگ دکھایا اور انیس سو چوہتر کے اوائل میں ایک دن ساغر لاہور کی سڑکوں پر مردہ پاۓ گۓ- وہ ٹھنڈ لگنے سے نیند کے دوران ہی فوت ہو گۓ- ان کی عمر صرف چھیالیس برس تھی-

وہ کتا جو چھ سال تک ان کے ساتھ رہا، اس جگہ سے نہ ہلا جہاں وہ فوت ہوۓ- بلآخر ساغر کی موت کے ایک سال بعد وہ بھی مر گیا ---- ٹھیک اسی جگہ جہاں ساغر نے اپنی جان دی تھی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Mubashir Khaleeq Aug 01, 2014 01:58pm
Its a great tribute to a great poet like Saghar Siddiqi by unconvering thehidden aspects of his life. i really appreciate.
یمین الاسلام زبیری Aug 04, 2014 02:03am
اوپر ساغر کے بارے میں مختصر تحریر پڑھ کر مصطفی زیدی کے دو اشعار ذہن میں آتے ہیں: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں + تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک + کون سی دیوار سے سمٹی ہے چمبیلی کی مہک

کارٹون

کارٹون : 5 اپریل 2025
کارٹون : 4 اپریل 2025