• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

ایبولا وائرس میں امریکا کی دلچسپی

شائع September 8, 2014
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

کچھ سال پہلے میں نے سان فرانسسکو میں پرانی کتابوں کی ایک دکان سے "جرمز" نامی کتاب خریدی۔ نیو یارک ٹائمز کے تین صحافیوں نے 380 صفحات پر مشتمل ریسرچ شائع کی تھی۔ لکھاریوں میں سینیئر نمائندے جوڈتھ ملر، اسٹیفین اینگلبرگ، اور Pulitzer انعام یافتہ سائنس رائٹر ولیم براڈ شامل تھے۔

2001 میں شائع ہونے والی اس ریسرچ کا بتایا گیا مقصد یہ تھا، کہ اس وقت کے گرما گرم موضوع "حیاتیاتی ہتھیاروں اور امریکا کی خفیہ جنگ" کی تحقیق کی جائے، اور اس پر کھلے عام بات کی جائے۔ مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کے پھوٹ پڑنے کے بعد مجھے ایک بار پھر اس کتاب کو کھولنے کا خیال آیا۔ کتاب میں اس ہلاکت خیز وائرس کے بارے میں دلچسپ مشاہدات ہیں۔

ایبولا وائرس کے حوالوں کے علاوہ اس کتاب میں اور بھی کچھ موضوعات ہیں، جو دلچسپی بڑھاتے ہیں، اور ان سب کو بلٹ پوائنٹ کیا گیا ہے۔ کس طرح سی آئی اے نے جراثیمی بم بنائے اور ان کا تجربہ کیا، جس سے امریکی انتظامیہ کو خطرہ محسوس ہوا، کہ ایسے ہتھیار بنانا حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اور کس طرح پینٹاگون نے انتہائی خطرناک جراثیم (Superbug) بنانے کا ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا تھا۔

اس کتاب میں سوویت یونین کے حیاتیاتی ہتھیار بنانے کے ایک وسیع و خفیہ پروگرام پر بھی تفصیلات موجود ہیں۔ الزامات بھی ہیں کہ کس طرح ان ہتھیاروں کا تجربہ انسانوں پر کیا گیا تھا، اور کس طرح ماسکو کے سائنسدانوں نے ایک ایسا جرثومہ تیار کیا تھا، جس کو ٹریس کرنا ناممکن ہے، اور وہ انسانی جسم کو خودکار طور پر تباہ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ امریکی ملٹری کی جانب سے 1960 میں کیوبا پر جراثیمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا منصوبہ ایک اتنا اچھا موضوع ہے، کہ کسی بھی پڑھنے والی کی توجہ اپنی جانب کھینچ سکتا ہے۔ سابق صدر کلنٹن بھی ان سینکڑوں سائنسدانوں اور اہلکاروں میں شامل ہیں جن کا انٹرویو کیا گیا تھا۔

لیکن پھر بھی مجھے ایبولا وائرس پر بات کرنے دیں۔ کیا ہو گا اگر وائرس ہمارے ارد گرد کے گنجان آباد شہروں تک پہنچ جائے، یا کسی اور مزید خطرناک وائرس میں تبدیل ہو جائے۔ کیا ہوگا اگر عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں جاری دھرنے میں شریک کوئی شخص لائیبیریا سے وائرس اپنے ساتھ لے آیا ہو؟

جنوبی ایشیا میں افواہیں اور وائرس خوفناک تیزی کے ساتھ پھیلتے ہیں۔ اگست 1994 کے پہلے ہفتے میں محکمہ صحت نے گجرات کے سورت شہر سے 150 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں چوہوں کی بڑی تعداد میں اموات کا پتہ لگایا تھا۔

پھر 21 ستمبر 1994 کو سورت شہر کے میڈیکل واچ ڈاگ کو رپورٹ ملی، کہ ایک مریض کی نمونیائی طاعون سے موت واقع ہوئی ہے۔ اسی دن حکام کو مزید 10 اموات کی رپورٹ ملی۔

50 کے قریب شدید بیمار مریضوں کو سورت اسپتال منتقل کیا گیا۔ دو دن میں تقریباً تین لاکھ لوگوں نے سورت سے نقل مکانی کی، جو تقسیم کے بعد کی سب سے بڑی نقل مکانی تھی۔ باقی کے ہندوستان میں Tetracycline اینٹی بائیوٹک اور ماسک بلیک مارکیٹ کی نذر ہو گئے۔

ایک ایسا ملک جہاں افواہوں پر یقین رکھنے کے لیے پورا ملک تیار ہو، وہاں پولیو کا خاتمہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ ویکسین کے خلاف مزاحمت، جو کہ سب سے زیادہ مغربی اتر پردیش کے پسماندہ مسلم علاقوں میں دیکھنے میں آئی، اسے ختم کرنے میں کچھ مقامی نیک دل لوگوں کا بہت تعاون تھا۔

یونیسیف کی ایک انتہائی ثابت قدم اسکاؤٹ کی ہوشیاری نے متاثرہ ریاست میں پولیو کے خلاف جنگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک خاتون، جو کہ اپنے بچے کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکاری تھی، سے شرط لگائی کہ اگر پولیو قطرے پلانے کے بعد اس خاتون کی مرغی نے انڈہ دیا، تو پورا گاؤں اپنے بچوں کو قطرے پلوائے گا۔ وہ اپنی شرط میں کامیاب ہوئیں، اور ان کی محنت کی بدولت لوگوں نے اپنے بچوں کو قطرے پلوانے پر آمادگی ظاہر کی۔

لیکن ایبولا وائرس کے بارے میں بات کریں، تو معمہ یہ ہے، کہ لوگوں کی اموات کی وجہ ویکسین کا دستیاب نا ہونا ہے۔ 1976 میں ایک بیلجیئن سائنسدان نے ایبولا وائرس پر تحقیق کی تھی۔ تب سے اب تک 4 دہائیاں گزر چکی ہیں، پر ہمارے پاس اب بھی کوئی تریاق نہیں ہے۔

ایبولا وائرس کے بارے میں عالمی برادری کی پریشانی کو کیا ہم 1988 میں تفتیشی صحافی چارلس پلر اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی مائیکرو بایولوجسٹ کیتھ یاماموٹو کی تحقیق سے جوڑ سکتے ہیں؟

فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات سے انہوں نے ایک کتاب "Gene Wars: Military Control over the New Genetic Technologies" لکھی تھی۔ اس تحقیق نے امریکا کے خطرناک جراثیم (Superbug) بنانے کے منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ لکھاریوں نے کانگریس کو اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے مجبور کیا۔

امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک میں واقع میڈیکل ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کمانڈ کے سربراہ فلپ رسل نے کہا تھا، کہ ان کے علم میں تھا کہ سوویت یونین نے اپنے لوگوں کو افریقہ بھیجا ہے، تاکہ وہاں سے ایبولا اور ماربرگ وائرس حاصل کیے جا سکیں۔ رسل نے انٹیلیجنس کی جانب سے ان رپورٹس کے بعد خطرناک وائرسوں پر تحقیق کا حکم دیا تھا۔ ان کے مطابق یہ بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔

فورٹ ڈیٹرک میں ایک خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا وینٹیلیشن سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے، کہ اگر کوئی جراثیم حادثاتی طور پر چھوٹ جائیں، تو وہ لیب میں واپس کھینچ لیے جاتے ہیں۔ صرف ایبولا جیسے انتہائی خطرناک وائرس جن کا کوئی علاج نہیں، ان کو احتیاط سے ہینڈل کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی ہے کہ جنگ سے اپنے اور دوسرے لوگوں کو قدرتی اور مصنوعی جراثیم سے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ افریقہ کے لوگوں کے لیے اب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔

ماحولیات پر دہلی کے ایک نامور جریدے نے ایبولا سے متعلق ریسرچ پر سوال اٹھائے ہیں۔

"ایبولا وائرس کی کچھ مخصوص اسٹرین کے پیٹنٹ امریکا کے پاس ہونے، اور امریکی محکمہ دفاع کی ایک کینیڈین فرم کے تعاون سے ویکسین تیار کرنے میں دلچسپی کی رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔ تفصیلات سرسری ہی ہیں، پر ان سے ایبولا میں امریکا کی دلچسپی کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے"۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025