سوشلزم کیوں؟
1949 میں البرٹ آئن سٹائن نے ایک مضمون لکھا تھا، 'سوشلزم کس لیے؟'۔ اس مضمون میں انھوں نے سیدھے سادے الفاظ میں بتایا تھا کہ انسانیت کے لیے کیوں ضروری ہے کہ وہ ایک نیا سماجی نظام تشکیل دے جو ان اصولوں سے بنیادی طور پر مختلف ہو جو اس زمانے کے سرمایہ داری نظام میں موجود تھے۔
آئن سٹائن کے سیاسی نظریات ان کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھے، لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی سوشلسٹ سیاست کو مکمل طور پر ان سے جدا کردیا گیا۔
صرف اس عظیم انسان کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہوا۔ نہ صرف اس ملک میں بلکہ دنیا بھر میں بھی، بیشمار افراد کو جنھوں نے کھلم کھلا ریاست اور طبقاتی قوت، اور قومی استبداد کے خلاف بغاوت کی، انھیں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نظام کے وفاداروں کی شکل دے کر پیش کیا گیا۔ بعض کو تو گمراہ کن حد تک کارپوریٹ برانڈ بنا دیا گیا، جن میں سے ایک واضح مثال چی گویرا کی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت آئن سٹائن اور چی گویرا کی مصنوعی شخصیت سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کے بارے میں ان کا علم کم اور کنفیوژڈ ہے جس کی بنیاد مکمل طور پر قومی پروپیگنڈا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں، یورپ کے عام لوگوں میں سوشلسٹ روایات میں نئے سرے سے دلچسپی پیدا ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں، سلاووج زازیک اور لین بادیو جیسی اہم دانشور شخصیات کھلم کھلا طور پر لینن جیسے انقلابیوں کی تحریروں کو منظرعام پر لارہی ہیں اور اصلی کمیونسٹ فلسفے کی تشہیر کررہی ہیں۔ 1991 میں "حقیقی طور پر موجود سوشلزم" کے خاتمے کے بعد کے برسوں میں جو کچھ ہوا تھا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان سوشلسٹ مفکرین کا بڑھتا ہوا اثر کوئی معمولی بات نہیں۔
اس کے باوجود، بہت سے ممالک میں غالب رجحان وہی نظر آرہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کو لیجیے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر سے مغربی بنگال اور کیرالا میں کمیونسٹ پارٹیوں نے یکے بعد دیگرے اپنی حکومتیں قائم کیں، اور قومی دھارے کے دانشوروں میں بھی بائیں بازو کے نمائندوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ مگرگزشتہ دہائی میں، ہندوستانی سوشلزم پسپا ہوا ہے، اور کئی دہائیوں بعد آج اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔ سوشلزم کو خود اپنے تضادات کی وجہ سے کچھ کم نقصان نہیں پہنچا۔ سوشلسٹ نظریہ، جسے بیک وقت روشن خیالی کے اصولوں کی انتہائی منزل اور سرمایہ داری سے انکار سمجھا جارہا تھا، ابھی خود کو ماڈرنائزیشن کی بند گلی سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرپایا ہے۔
تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بیسویں صدی میں سوشلزم کی شکل کو بگاڑنے کے لیے کتنے ہی وسائل اختیار کیے گئے اور سیاست، کلچر کے علاوہ سماج کے تمام پہلوؤں کو اس سے متاثر کرنے کی روایت آج بھی جاری ہے۔
پاکستان میں امریکن ایمپائر، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کی سیاسی قوتوں نے مل کر ان تمام لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے، جو بائیں بازو کے نظریات سے محض ہمدردی بھی رکھتے ہوں۔ کمیونسٹوں کو بلا جھجک لادین اور اسی وجہ سے اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کمیونسٹ نہیں تھے اور سوشلزم کے ساتھ ان کی وفاداری متنازعہ ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی بدترین کردارکشی کی گئی جس کی وجہ سوشلزم کی جانب ان کا جھکاؤ تھا۔
گو کہ، انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی سے کم مسلمان نہیں تھے۔
سرکاری یونیورسٹی میں کام کرنے والے ایک استاد کی حیثیت سے میں ہر روز یہ دیکھتا ہوں، کہ سوشلسٹ دشمن پروپیگنڈہ ہمارے معاشرے کی رگوں میں کس حد تک سرایت کرگیا ہے۔ صرف نادان لوگ ہی مارکس وغیرہ کی خدمات کو نظر انداز کرسکتے ہیں جو انھوں نے جدید سوشل تھیوری کے میدان میں انجام دی ہیں، لیکن اگر مارکس کی تصنیفات کا معمولی سا ذکر بھی کیا جائے تو ایک رسوائے زمانہ طلبا تنظیم کی سانس پھولنے لگتی ہے کیونکہ وہ یقین کی حد تک سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اسلام کو ختم کرنا اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی سے جبکہ پاکستانی معاشرے کو 'اسلامی لبادہ' اوڑھایا گیا، وہی زمانہ تھا جبکہ سوشلزم کو سب سے زیادہ بدنام کیا گیا۔ پاکستانی معاشرہ زیادہ علیحدہ نظر آنے لگا ہے اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ اخلاقی زوال کا شکار ہوگیا ہے، یعنی ہم اپنے آپ کو جتنا زیادہ 'اسلامی' اخلاقیات کے علمبردار ظاہر کرنے لگے ہیں، ہم اتنا ہی زیادہ دکھاوا کرنے لگے ہیں، جس میں اجتماعی بھلائی کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔
سوشلسٹ نظریات میں بلاشبہ اجتماعی بھلائی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ گو کہ اس نظریے کے بارے میں دیگر اور بہت سی غلط بیانیوں کی طرح یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سوشلزم میں فرد، اس کی آزادی اور اس کی امنگوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس، جیسا کہ آئن سٹائن کا مشاہدہ تھا، سرمایہ داری میں فرد کو ناقابل تلافی طور پر علیحدہ کردیا جاتا ہے۔
"فرد پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاشرے پر انحصار کرنے لگا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس انحصار کو مثبت اثاثہ، ایک مضبوط رشتہ، ایک ایسی طاقت نہیں سمجھتا جو اس کا تحفظ کرے گی، بلکہ وہ اسے اپنے فطری حقوق کے لیے، بلکہ اپنے معاشی وجود کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ علاوہ ازیں، معاشرے میں اس کی پوزیشن ایسی ہوتی ہے کہ اس کی شخصی انا پر مسلسل چوٹ پڑتی ہے، جبکہ اس کے سماجی محرکات جو فطری طور پر کمزور ہوتے ہیں، دن بہ دن مزید کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام افراد، خواہ ان کا مرتبہ معاشرے میں کچھ ہی کیوں نہ ہواس عمل سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ غیر شعوری طور اپنی انا میں محصور یہ لوگ خود کو غیر محفوظ، تنہا اور زندگی کی سیدھی سادی معصوم خوشیوں سے محروم سمجھنے لگتے ہیں۔"
اگر ہم مسلسل یہ بحث کرسکتے ہیں کہ جمہوریت کیوں نہیں، شریعت کیوں نہیں؟ تب اس ملک میں اس سوال پر بھی بحث ضروری ہے کہ سوشلزم کیوں نہیں؟
ترجمہ: سیدہ صالحہ
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس سے وابستہ ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں