'پاکستان میں حقیقی جدوجہد غریب اور اشرافیہ کے درمیان ہے'
کراچی: ہم ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں کرپائے ہیں کہ ہمیں ایک جمہوری فلاحی ریاست درکار ہے، یا ایک سیکورٹی اسٹیٹ؟ اپنے قیام کے آغاز کے بعد سے ہی غریب اور اشرافیہ کے درمیان پاکستان کے لیے یہ جدوجہد ہمیشہ جاری رہی ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز اسی قومی داستان کی وضاحت کررہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار آغا خان یونیورسٹی کے چھٹے حساس فورم لیکچر کے سلسلے میں منگل کے روز ایک مباحثے میں کیا گیا۔ اس مباحثے کا عنوان تھا ’’پاکستان کا بڑھتا ہوا سیاسی درجۂ حرارت‘‘۔ جس میں جمہوریت کی افادیت اور اس کو لاحق غیرمتوقع خطرات اور اس کی سرگرمیوں پر گرماگرم بحث کی گئی۔
اس مباحثے میں معروف کالم نگار اور صحافی غازی صلاح الدین، حکومتِ بلوچستان کے اقتصادی مشیر قیصر بنگالی اور ٹی وی اینکر پرسن اور کالم نگار عائشہ تمی حق شریک تھیں۔
غازی صلاح الدین جنہوں نے اپنے کئی کالموں میں شناخت کے بحران کے مسائل کو پیش کیا ہے، جس کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑ رہا ہے۔ جب ان سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہی موضوع ان کے سامنے آگیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں پاکستان کی شناخت سے متعلق ایک بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ کیا ہمیں ایک جمہوری فلاحی ریاست بننا چاہیے یا ایک سیکورٹی اسٹیٹ؟‘‘
انہوں نے محسوس کیا کہ صرف فوج ہی اس سوال کا جواب دے سکتی ہے، اس لیے کہ اس کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
’’اس کو سولین حکومت کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘
قیصر بنگالی کی اس موضوع پر مختلف رائے تھی۔ پاکستان کے شناخت کے بحران پر ان کا خیال تھا کہ اس کو اشرافیہ بمقابلہ غریب کے نکتہ نظر سے دیکھنے کے ضرورت ہے۔
انہوں نےکہا ’’پاکستان کے قیام کے آغاز سے غریب اور اشرافیہ کے درمیان یہ جدوجہد جاری ہے۔ پاکستانی اشرافیہ دنیا کے کسی بھی دوسرے گروہ کی طرح لالچ کا شکار ہے۔ وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتی ہے۔‘‘
ان کے مطابق بشمول سویلین کے نصف درجن فوجی دورِ اقتدار میں پاکستان غریب اور اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی کھینچاتانی کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اپنے بیان کی تصدیق کے لیے انہوں نے ضیاء کےاقتدار کے برسوں کی مثال دی۔
انہوں نے کہا ’’ضیاء کے مارشل لاء کے دوران کاروباری طبقے اور دولت مند پیشہ وروں نے ضیاء کی حمایت کی تھی۔ ان کو اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل تھی۔‘‘
عائشہ تمی حق نے الیکٹرانک میڈیا کے فریم ورک کے تحت آج کے پاکستان کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہی کی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے اینکر پرسنز ساتھی ان کی تنقید سے بچ نہیں سکے، انہوں نے ایسے اینکر پرسنز کی جانب اشارہ کیا کہ جنہوں نے اپنے مختلف ٹاک شوز پر اپنے مہمانوں کے لگے لپٹے بیانات کو چیلنج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ٹاک شوز کے مہمان بہت جارحانہ انداز ااختیار کرلیتے ہیں اور ٹاک شوز کے میزبان کو دھمکی دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ان کے بیانات کی حقیقت کو چیلنج نہیں کرتے۔‘‘
عائشہ تمی حق نے کہا ’’اس کے علاوہ جب ایک جیسی پانچ چیزیں مستقل پانچ ٹی وی چینلز پر دوہرائی جائیں تو پھر عام لوگ اس کو ایک مقدس سچ تصور کرلیتے ہیں۔ یہ بڑے میڈیا گروپس ہیں، جو ٹی وی چینلز کو اشرافیہ کے طور پر کنٹرول کررہے ہیں، اور اسی کے نتیجے میں یہی قومی داستان ہے۔‘‘
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے قیصر بنگالی نے بتایا کہ ایک حالیہ ٹاک شو میں شریک ایک معروف اردو اخبار کے کالم نگار نے دعویٰ کیا کہ ٹوکیو شہر میں جرائم کی شرح اس کی مافیا کی مدد سے گر گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے۔ اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔‘‘
غازی صلاح الدین کے مطابق ٹاک شوز یکطرفہ اور جانبدار ہوگئے ہیں اور یکسانیت کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ٹاک شوز سیاسی شعور کے اضافے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں۔‘‘
قیصر بنگالی نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کی توجہ گلگت بلتستان یا صحت اور تعلیم جیسے مسائل پر مرکوز نہیں ہے۔
اس پر عائشہ تمی حق نے کہا کہ ایسا اس لیے کہ ہے کہ اس طرح تو عوام ان لوگوں کی قیادت اور ملک چلانے کی قابلیت کے بارے میں سوال کرنا شروع کردیں گے۔
انہوں نے کہا ’’دھرنوں اور جلسوں کے جیسی کوریج سے لوگوں کی توجہ ہٹانا زیادہ آسان ہے۔‘‘
شرکاء میں سے ایک نے جمہوریت اور سیاستدانوں کو ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا، جس کا ان تینوں ماہرین نے کہیں زیادہ بدنام حکومتی نظام کا زور و شور سے دفاع کیا۔
قیصر بنگالی نے کہا ’’جمہوریت نے کچھ قوموں میں کام کیا ہے اور دیگر ملکوں میں کام نہیں کیا۔ اسی طرح آمریت نے کچھ اقوم کو ترقی دی ہے، تو دوسرے ملکوں میں کہیں زیادہ گہرا نقصان پہنچایا ہے۔ حقیقی بحث جمہوریت اور آمریت کے درمیان نہیں ہے۔ دراصل یہ اس سماجی طبقے کے بارے میں ہے جس کے ہاتھ میں سماج کی باگ ڈور ہے۔ عمران خان خود کو تبدیلی کا ایک محرک کہہ سکتے ہیں، لیکن ان کے اردگرد موجود سماجے طبقے کو دیکھیے، یہ ضیاء، مشرف، زرداری یا نواز شریف میں مختلف نہیں ہے۔ وہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔‘‘
عائشہ تمی حق نے گہرائی سے محسوس کیا کہ عوام نے اسی طریقہ کار کی پیروی کی ہے، اور اس طرح کی بحث پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہونی چاہیے۔