بلوچستان کو ملیں گے گیس کی پیداوار پر 5 لاکھ ڈالرز
اسلام آباد: حکومتِ بلوچستان کے لیے یہ پہلا موقع ہوگا کہ وہ مقامی لوگوں کی ترقی کے لیے سماجی بہبود کے پروگرام کے تحت پٹرولیم کی ریسرچ اور پیداواری کمپنی سے پیداواری بونس کے طور پر پانچ لاکھ ڈالرز کی رقم حاصل کرے گی۔
اس معلومات سےکل بدھ کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل ایک بینچ کو آگاہ کیا گیا۔
اس اطلاع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے فوراً اس بینچ کے ایک رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبارکباد دی۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی عیسٰی کو حال میں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا، اس سے پہلے وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
ایسے علاقے جہاں تیل کی تلاش جاری ہے، خصوصاً سندھ کا ضلع سانگھڑ میں بھاری مشنری کی نقل و حرکت سے ماحولیاتی آلودگی اور خستہ حال سڑکوں کے بنیادی ڈھانچوں کے نقصانات کے حوالے سے کمپنیوں کی سماجی ذمہ داری کے معاملے پرسپریم کورٹ نے 27 دسمبر 2013ء کو ایک حکم جاری کیا تھا، جس کے نفاذ سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت یہ بینچ کررہا تھا۔
بلوچستان کے توانائی کے محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالقدوس خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیداواری بونس مری پٹرولیم کمپنی کی جانب سے دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں زرغون ایکسپلوریشن بلاک سے اس کمپنی کی قدرتی گیس کی موجودہ پیداوار 22 سے 25 ملین کیوبک فٹ روزانہ ہے۔ اس پلانٹ کا افتتاح اس سال 14 اگست کو ہوا تھا۔
بلوچستان میں زرغون، سوئی، جھل مگسی اور پیرکوہ سمیت چھ ایکسپلوریشن بلاکس ہیں۔
لائسنس کی منظوری کے مطابق آئل اور گیس کی تلاش کرنے والی ایک کمپنی فی بلاک تیس ہزار ڈالرز سالانہ ملک میں سرمایہ کاری کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
عبدالقدوس خان نے بتایا کہ حکومتِ بلوچستان نے اب تک مختلف پیداواری کمپنیوں سے سماجی بہبود کی ذمہ داری کے تحت دس کروڑ روپے وصول کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فنڈز پہلے وفاقی حکومت کے ذریعے موصول ہوتے تھے، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد مقامی آبادی کی ترقی کے لیے صوبے ان کمپنیوں سے یہ فنڈز اب براہ راست حاصل کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے 27 دسمبر کو اپنے فیصلے میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ پیداواری بونس اور سمندری تحقیق کی فیس کے سلسلے میں معقول فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔