کابل: جنوبی افریقی خاندان قتل، پولیس چیف مستعفی
کابل: افغانستان کے دارالحکومت میں طالبان کے حملے میں جنوبی افریقی خاندان کے تین افراد کو قتل کر دیا گیا جس کے بعد کابل پولیس چیف نے استعفیٰ دے دیا۔
افغنستان میں تعلیم کے حوالے سے سرگرم امریکی تنظیم پی اے ڈی (پارٹنر شپ اینڈ ڈیولپمنٹ) نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ پی اے ڈی کے زیر انتظام چلنے والے ایک کمپاونڈ پر حملہ کیا گیا جس میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
![]() |
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ شخص سمیت اس کے عمر بیٹا اور بیٹی نشانہ بنے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور کابل میں چند ہفتوں میں غیر ملکی گیسٹ ہاوسز، سفارتخانوں کی گاڑیوں امریکی فوجیوں اور خواتین ارکان اسمبلی کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
پی اے ڈی کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کمپاونڈ میں متعدد عسکریت پسند داخل ہوئے تھے جنہوں نے فائرنگ اور دھماکے کیے جس سے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک ہوئے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹر اکاؤنٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا نشانہ بنائے جانے والا کمپاونڈ خفیہ طور پر عیسائی مشنری ادارے کے طور پر کام کر رہا تھا۔
طالبان کے حملوں کو روکنے میں ناکامی اور جنوبی افریقی خاندان کے تین افراد کے قتل کے بعد کابل کے پولیس چیف نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
جنرل ظاہر ظاہر نےایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حملہ آوروں نے عمارات میں داخل ہوتے ہی اس کے ڈائریکٹر کو نشانہ بنایا اور ان کو قتل کر دیا۔
![]() |
جنرل ظاہر ظاہر نے امن عامہ کی خراب صوتحال کے باعث کابل پولیس چیف کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔۔۔فوٹو:اے ایف پی |
جنوبی افریقی خاندان کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17 سالہ لڑکا اور 15 سالہ لڑکی شامل ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت بچوں کی والدہ جو کہ اہک ڈاکٹر ہیں کمپاونڈ سے باہر تھیں جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہیں۔
یاد رہے کہ 2010 تک افغانستان میں غیرملکی افواج کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد تھی جبکہ رواں برس فوجی انخلاء کے بعد یہ تعداد 12 ہزار 500 تک محدود ہو جائے گی۔
افغانستان میں مضبوط فوج اور منظم پولیس نہ ہونے کے باعث یہ خوف جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ غیر ملکی فوج کے جانے کے بعد ملک دوبارہ انتشار کا شکار ہو جائے گا۔