حادثات ہی اقوام کو جنم دیتے ہیں
جاپان ایک ایسا ملک ہے جو مسلسل حادثات کی زد میں رہا ہے۔ آج سے نوے سال پہلے جاپان میں آنے والے زلزلے میں تقریباً ایک لاکھ تئیس ہزار کے قریب لوگ لقمہء اجل بنے۔ جاپان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف ایٹم بم کا استعمال کر کے اس کے دو شہروں کو ملیامیٹ کر دیا گیا۔ یہ جاپان کی تاریخ میں دوسری بڑی قیامت تھی جس میں سوا لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے، اور پھر تین سال پہلے تاریخ کے بدترین سونامیوں میں سے ایک بھی جاپان کو ہی جھیلنا پڑا جس میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے اور صرف عمارتوں کے نقصان کی مد میں تین سو بلین ڈالرز کا نقصان ہوا، جبکہ باقی نقصان کا تخمینہ اس سے الگ ہے۔
یہ اور ایسے تمام حادثات مسلسل جاپان کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ آج بھی ہر سال تقریباً پندرہ سو کے لگ بھگ چھوٹے بڑے زلزلے جاپان میں آتے ہیں جس میں جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے، مگر یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام حادثوں نے بھی جاپانی قوم کے حوصلے پست نہیں کیے، بلکہ ہر حادثے نے انہیں پہلے سے مضبوط اور پر عزم کیا ہے۔
جاپان کے پاس قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں مگر پھر بھی دنیا کی تیسری بڑی معیشت جاپان کی ہے۔ آج جاپان کی شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کار فیکٹری جاپان میں ہے۔ ہم مارکیٹ میں الیکٹرونکس خریدنے جائیں تو سب سے پہلے جاپان کا ٹیگ دیکھتے ہیں، ایشیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج بھی جاپان میں ہی ہے۔ جاپان میں چلنے والی ٹرینیں دنیا میں سب سے زیادہ وقت کی پابند سمجھی جاتی ہیں۔ جاپان کی تاریخ میں سب سے زیادہ لیٹ ہونے والی ٹرین صرف سولہ سیکنڈز لیٹ ہوئی ہے۔
ایسی اور بھی بہت سی قابل ذکر باتیں ہیں جو جاپانی قوم کو دنیا میں سب سے نمایں کرتی ہیں۔ اور ان کی ہمت کو داد دینے کو دل کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جاپانی قوم نے حادثات سے ہی جنم لیا ہے۔ ورلڈ رسک رپورٹ 2013 کے مطابق سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد میں رہنے والے ممالک میں جاپان کا نمبر پندرہواں ہے اور پاکستان کا تہترواں۔
پشاور اسکول حملے کے فوراً بعد تمام سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی نظر آئی۔ عمران خان جو ایک دن بعد پورے ملک کو بند کرنے والے تھے، وہ بھی وزیر اعظم کے شانہ سے شانہ ملا کر بیٹھے نظر آئے۔ اور اس کے فوراً بعد یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ فوراً کنٹینر پر واپس آئے اور چار ماہ سے جاری دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ آج جو کام ایک سو چونتیس ننھے شہداء نے کر دیا ہے، وہ پچھلے چار ماہ سے جاری دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے جلوسوں نے بھی نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ نیا پاکستان اب بننے جا رہا ہے، بچوں نے اپنی جان تو دے دی ہے، مگر ہماری سیاسی قیادت اور قوم کو جاتے جاتے یہ بتا گئے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں، نیا پاکستان کیسے بن سکتا ہے، پشاور سانحہ کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک ہجوم سے ایک قوم بن رہے ہیں۔
اس سے پہلے لاکھوں کے جلسوں میں بھی ایک قوم ہونے کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی تھی۔ بس ہجوم ہی ہجوم تھا اور شور ہی شور۔ سب کی اپنی پسند ناپسند تھی، سب کے اپنے اپنے سیاسی مقاصد تھے مگر اس سانحہ کے بعد پوری قوم پوری سیاسی قیادت، ہماری فوج، اور مذہبی جماعتیں اس دہشت گردی کے خلاف یک زبان نظر آئے۔
اب ہماری تاریخ میں وہ موقع آیا ہے کہ ہم تمام تر سیاسی اختلاف کو بھلا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ اپنی پہلی ترجیح سمجھیں اور اس کے خلاف نکل کھڑے ہوں۔ ہمیں اب اس بحث سے نکلنا ہوگا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا کسی اور کی۔ اس جنگ کو اپنانا ہوگا۔ اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ اس دہشت گردی کو ملک سے ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے آپریشنز ملک کے اندر شروع کرنے ہوں گے جو دہشت گردی کی جڑوں کو کاٹ سکیں۔ جو عوامل اس ملک میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں ان کا تعین کرنا ہوگا۔
میاں صاحب آپ نے عالمی دباؤ کے باوجود پھانسی کی سزا کو بحال کر کے اس پر عملدرآمد تو شروع کروایا، مگر اس معاملے میں انصاف کی فراہمی کو پھانسی کے پھندے تک یقینی بنانا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا اعلان کر کے ایک بہت بڑا قدم تو اٹھایا ہے، مگر اس فیصلے پر پوری قوم کو اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
ملک میں جہاں مدارس کی بڑی تعداد اچھا کام کر رہی ہے وہیں ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک میں اٹھارہ سے بائیس ہزار مدارس ایسے ہیں جو غیر رجسٹرڈ ہیں، جن میں ہزاروں نہیں لاکھوں طلباء ایک ایسا نصاب پڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں حکومت وقت لاعلم ہے کہ یہ نصاب بن کہاں پر رہا ہے، اس کو پڑھانے والا کون ہے اور پڑھنے والے کون ہیں۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کے اردگرد چند کلومیٹر کے اندر چار سو سے زائد مدرسے ایسے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں، اور ان میں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ میاں صاحب آپ کو ابتدا اپنے گھر سے ہی کرنی ہوگی جیسے کہ آپ نے واشنگٹن میں کہا تھا۔ آپ کو ان مدرسوں اور ان کے نصاب پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں دین کے نام پر لوگوں کو بہت اکسایا جاتا رہا ہے۔ مسجد و منبر کا استعمال ذاتی اور جماعتی مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ آپ کو اس پر بھی نظر رکھنی ہوگی، صرف لاؤڈاسپیکر پر پابندی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر جو کچھ بولا جاتا ہے، اس پر بھی آپ کو چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا۔
آپ کو منافرت پھیلانے والی تنظیموں پر بھی نظر رکھنی ہوگی جو اس ملک میں خفیہ یا سرِعام شرعام کر رہے ہیں۔ ان کی فنڈنگ کون کر رہا ہے اور پیسے کہاں سے آرہے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً ساٹھ لاکھ کے قریب غیر قانونی لوگ آباد ہیں جن میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ افغانی ہیں جن کا نام دہشت گردی پھیلانے میں سب سے زیادہ آتا ہے۔ اگر آپ نے ان تمام پہلوؤں پر نظرثانی اور پھر عملی طور پر اقدامات کیے تو یقین جانیے آپ اس ملک کے سب سے مضبوط وزیر اعظم ہوں گے اور یہ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنا فرض اسی طرح نبھانا ہوگا اور اسی طرح اس دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جس طرح ہم اس ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع کر رہے ہیں۔ اس ملک کا ہر فرد ایک فوجی بھی ہے اور ایک سیاسی رہنما بھی۔ اس کو بھی اتنی ہی ذمہ داری لینی ہوگی جتنی ایک فوجی کی ہے اور ایک سیاسی رہنما کی۔
ہم سب پشاور سانحہ پر دل گرفتہ ضرور ہیں مگر مایوس نہیں۔ اگر جاپان قدرتی آفات میں دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں پندرہویں نمبر پر ہونے کے بعد بھی دنیا پر حکومت کر رہا ہے تو ہمارا نمبر تو پھر بھی تہترواں ہے۔ دہشت گردوں نے ہمارے دل پر وار ضرور کیا ہے مگر اس سے ہمارا دل کٹا نہیں مزید مضبوط ہوا ہے، اور یہ مضبوط دل مشکلات کے باوجود تمام دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں