• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے صوبوں کو خطیر امداد کی پیشکش

شائع February 3, 2015
وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کا ایک گروپ فوٹو۔ —۔ فائل فوٹو اے پی پی
وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کا ایک گروپ فوٹو۔ —۔ فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: جمعہ کے روز شکار پور کی امام بارگاہ پر ہوئے خودکش حملہ، جس میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، کے حوالے سے مخالفین اور اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر بے حسی اختیار کرنے کا الزام عائد کیے جانے کے بعد حکومت نے پیر کے روز قومی اسمبلی میں صوبوں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے انہیں ان کی توقعات سے بڑھ کر امداد دی جائے گی۔

حکومت نے قائدِ حزبِ اختلاف خورشید احمد شاہ کی شکایات اور دونوں اطراف کے دیگر اراکین اسمبلی کی جانب سے شدید مخالفت کا کوئی جواب نہیں دیا، کہ نہ تو نواز شریف جو اس حملے کے روز کراچی میں موجود تھے اور نہ ہی ان کے کسی وزیر نے شکارپور کا دورہ کرکے شہر کے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کیوں نہیں کیا۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے شکایت کی کہ وزراء اپنی نشستوں پر بیٹھے ہلکی پھلکی گپ شپ میں مصروف ہیں، جبکہ قائدِ حزبِ اختلاف نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمارے آنسو پوچھنے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتی ہے، تو ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے وزیر عبدالقادر بلوچ نے حکومتی بینچوں کی جانب سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کوئی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، انہوں اس مسئلے کو پاکستان کا اولین مسئلہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں اپنے دائرہ اختیار میں امن و امان کے قیام کے لیے خود ذمہ دار ہونے کے باوجود انہیں مرکز کی جانب سے مدد میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

وزیر مملکت نے کہا ’’وہ اپنی توقع سے زیادہ امداد حاصل کریں گے۔‘‘ انہوں نے ایوان کے ارکان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ صوبائی بنیادوں پر سوچنے سے گریز کریں اور انسدادِ دہشت گردی کے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں حکومت کی مخلصانہ حمایت کریں۔

سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی بپلک اسکول پر خودکش حملے کے بعد گزشتہ ماہ وزیراعظم کی جانب سے طلب کی گئی آل پارٹی کانفرنس میں اس پلان کو منظور کیا گیا تھا۔

اس اجلاس کے پہلے دن کا ایجنڈا، جس کی درخواست حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دی گئی تھی، بنیادی طور پر یہ تھا کہ گزشتہ ماہ ملک میں پٹرول کی قلت پر بحث کی جائے۔ تاہم اسے شکارپور حملے پر بحث کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔

ایوان نے پوری شدت کے ساتھ اس حملے کی مذمت میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔

اس مختصر قرارداد میں ایوان نے متاثرین اور سوگوار خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے حوالے سے قومی ایکشن پلان میں طے کیے گئے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں شدت پیدا کرے۔

شہرت حاصل کرنے کا حربہ

کل کی بحث کے دوران ایوان میں حزبِ اختلاف کے زیادہ تر اراکین اسمبلی نے شکارپور کے سانحے، دہشت گرد گروہوں اور ان گروہوں پر پردہ ڈالنے والے ان کے حمایتیوں یا حکومت کی مبینہ کمزوریوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔

لیکن حزبِ اختلاف کی عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر قانون ساز غلام احمد بلور نے اس موقع کو اپنی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ گزشتہ مہینے پیرس میں فرانسیسی میگزین اور ایک یہود ی سپرمارکیٹ پر ہلاکت خیز حملہ کرنے والے تین عسکریت پسندوں کے ورثاء کو ایک لاکھ ڈالرز اپنی جیب سے ادا کریں گے۔

یاد رہے کہ غلام احمد بلور نے اس رقم کا اعلان ستمبر 2012ء میں کیا تھا، جب وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت میں ریلوے کے وزیر تھے، انہوں نے کہا تھا کہ توہین رسالت پر مبنی فلم بنانے والے شخص کو جوکوئی قتل کرے گا، وہ اس کو یہ رقم دیں گے۔

تاہم پیر کے روز قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ان تین افراد جنہوں نے میگزین پر حملے میں بارہ افراد کو ہلاک کیا تھا اور خود فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے، کے ورثاء کو یہ رقم دیں گے۔

پارلیمنٹ کے اندر غیض و غضب پر مبنی اپنی نوعیت کا یہ پہلا اظہار تھا، لیکن کسی نے نہ تو اس کی توثیق کی اور نہ ہی کسی نے اس کی مخالفت کی اور یہاں تک کہ اسپیکر سردار ایاز صادق نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024