'فرخندہ ہماری بہن تھی'
کابل: افغانستان کے دارالحکومت میں ہزاروں مظاہرین نے مارچ کیا، وہ قرآن جلانے کے جھوٹے الزام پر ایک خاتون کو ایک ہفتہ قبل ہجوم کے ہاتھوں پُرتشدد ہلاکت کے حوالے سے انصاف کا مطالبہ کررہے تھے۔
مظاہرین میں شامل ہر عمر کے خواتین و حضرات نے بینرز اُٹھائے ہوئے تھے، اور کچھ نے اپنے چہروں پر سُرخ رنگ لگا کر فرخندہ کے خون آلود چہرے کی علامت کے طور پر پیش کیا تھا۔
واضح رہے کہ فرخندہ ستائیس برس عمر کی مذہبی اسکالر تھی، جسے ہجوم کے پچھلے ہفتے ہلاک کردیا تھا۔
فرخندہ پر پہلے تشدد کیا گیا، پھر اس کے اوپر سے ایک کارگزاری گئی اور پھر اسے نذرآتش کردیا گیا، بعد میں اس کی لاش کو دریائے کابل میں پھینک دیا گیا تھا۔
منگل کے اس مظاہرے کے منتظمین کے مطابق اس میں تقریباً تین ہزار افراد نے شرکت کی، یہ اس سفاکانہ قتل کے خلاف دوسرا مظاہرہ تھا۔
مظاہرین نعرے لگارہے تھے کہ ’’فرخندہ کے ساتھ انصاف کیا جائے‘‘، ’’فرخندہ ہماری بہن تھی‘‘، ’’قاتلوں کو موت کی سزا دی جائے‘‘ اور ’’جہالت کا خاتمہ کیا جائے‘‘۔
مظاہرین میں سے ایک احمد ضیاء نے کہا کہ ’’جن لوگوں نے اسے قتل کیا، ان کے دل میں خواتین، قانون یا شریعت کا کوئی احترام موجود نہیں ہے۔ فرخندہ کے سفاکانہ قتل کے بعد ایک بڑی تبدیلی آنی چاہیے۔‘‘
اسی دوران کابل شہر کے مرکز میں شہریوں نے اس مقام پر جہاں فرخندہ کو وحشیانہ طور پر قتل کیا گیا تھا، بطور یادگار ایک درخت لگایا۔ اس موقع پر ایک خاتون نے روتے ہوئے کہا ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے انہوں نے میری بیٹی کو قتل اور جلاکر مار دیا ہے۔‘‘
ایک احتجاجی خاتون نے کہا ’’سب لوگ ڈرپوک ہیں، انہیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔‘‘
افغانستان کے سیاسی رہنما اور انٹیلی جنس سروس نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے سابق ڈائریکٹر امراللہ صالح کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے فرخندہ کو ’’ناانصافی، ہجوم کی عدالت، سڑکوں پر تشدد، خواتین پر تشدد، لاقانونیت، انتہاپسندی‘‘ کے خلاف جدوجہد کی ایک مثال بنانے کی کوشش کی ہے۔
امراللہ صالح نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ’’فرخندہ ایک مثال بن گئی ہے، ایسا سلوک شاید بہت سے لوگوں کے ساتھ خاموشی سے ہورہا ہے۔ ایسے لوگ جو انصاف اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اور وہ جو اپنے نکتہ نظر میں انتہاپسند ہیں اور جو لاقانونیت کو پروان چڑھا رہے ہیں، فرخندہ نے ان کے درمیان اپنے خون سے ایک لکیرکھینچ دی ہے۔‘‘
بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے اس حملے کے دوران کسی قسم کی مداخلت نہیں کی اور ایک جانب کھڑی رہی۔
افغان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ 28 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور 13 پولیس افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
کابل پولیس کے ترجمان حشمت ستنک زئی کو برطرف کردیا گیا ہے، انہوں نے سوشل میڈیا پر فرخندہ کے قاتلوں کی حمایت کی تھی۔
دکانداروں سے جھگڑا
نقاب پہننے والی فرخندہ نے ابھی حال ہی میں مذہبی مطالعے کی ڈگری حاصل کی تھی، اور تدریسی عہدہ حاصل کرنے کے لیے تیاری کررہی تھیں۔ کابل کے مشہورمزار شاہ دو شمشیرہ پر تعویز فروخت کرنے والے ایک شخص سے جھگڑا ہوگیا تھا، جو بڑھ کر ایک حملے میں تبدیل ہوگیا۔
فرخندہ کی سہیلیوں اور ان کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ فرخندہ نے خواتین پر زور دیا کہ وہ اپنی رقم تعویز کی خریداری پر ضایع نہ کریں۔
ان کے والد محمد نادر کہتے ہیں کہ اس شخص نے جواب میں جھوٹا الزام عائد کردیا کہ فرخندہ نے قرآن جلایا ہے، جس کے بعد لوگوں نے وحشیانہ طور پر حملہ کردیا۔
منگل کے مظاہرے میں افغانستان خواتین کونسل کی سربراہ فطانہ گیلانی سمیت انسانی حقوق کے معروف رہنما بھی شامل تھے۔ فطانہ نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ ایک ایسے معاشرے میں جو جنگ، بدعنوانی اور قیادت سے محرومی سے زخم خوردہ ہے، یہ سانحہ تبدیلی کے لیے عمل انگیز ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’’نئی نسل جنگ کے سوا کچھ نہیں جانتی، وہ تعلیمیافتہ نہیں ہیں۔‘‘
مظاہرین نے ایسے سرکاری حکام اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا، جنہوں نے ابتداء میں کہا تھا کہ فرخندہ نے اگر قرآن کے صفحات جلائے تھے تو ان کے قتل کا جواز موجود تھا۔
یاد رہے کہ صدر اشرف غنی نے ایک تلخ انتخابی مہم کے بعد ستمبر میں یہ عہدہ سنبھالا تھا، جس کے دوران انہوں نے بے خوفی کے ساتھ خواتین کے آئینی حقوق، بدعنوانی کے خاتمے اور قیامِ امن کا عہد کیا تھا۔
آئین میں دی گئی مساوات اور تشدد سے تحفظ کی ضمات کے باوجود افغانستان کی خواتین اب بھی عوامی اور گھریلوسطح کے بڑے پیمانے پر تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
یورپی یونین نے منگل کو مطالبہ کیا ہے کہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان فیڈریکا موگہرینی نے کہا ’’آنسہ فرخند کی ہلاکت، المناک یاددہانی ہے کہ افغانستان میں خواتین کو جھوٹے الزامات اور انصاف کے فقدان کے خطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم سب امید کرتے ہیں کہ اس قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘