• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

تھر: نہ قدرت مہربان، نہ ریاست

شائع May 8, 2015 اپ ڈیٹ August 26, 2015
اچھڑو تھر میں قحط کا یہ تیسرا سال ہے۔ تصویر بشکریہ لکھاری
اچھڑو تھر میں قحط کا یہ تیسرا سال ہے۔ تصویر بشکریہ لکھاری
اچھڑو تھر میں قحط کا یہ تیسرا سال ہے۔ تصویر بشکریہ لکھاری
اچھڑو تھر میں قحط کا یہ تیسرا سال ہے۔ تصویر بشکریہ لکھاری

"پچھلے تین سال سے اچھڑو تھر میں قحط کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے ہمارے 75 فیصد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اگر بارش نہ ہوئی، تو باقی بچے جانور بھی مر جائیں گے۔" ربالو گاؤں کے پریم سنگھ نے سانگھڑ ضلع کے دورے پر آئے ہوئے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جب یہ الفاظ کہے، تو ہم سب کے پاس کچھ مزید کہنے کے لیے الفاظ جیسے ختم سے ہوگئے۔ یہ دورہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کی جانب سے کروایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ "یہاں کے لوگ مویشیوں، مکئی، اور دیگر فصلوں پر انحصار کرتے ہیں، لیکن ان کے اگنے کے لیے بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔"

ربالو گاؤں ضلع سانگھڑ کے شہر کھپرو سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں پر ٹھاکر یا سودا برادری کے تقریباً سو سے زائد گھر ہیں، جہاں وہ 1947 میں اقلیت بن جانے سے پہلے سے رہ رہے ہیں۔

سانگھڑ سندھ کے وسط میں واقع ہے، اور اس کے مشرق میں ہندوستان ہے۔

اچھڑو تھر ایک ریگستانی علاقہ ہے، جہاں زندگی مکمل طور پر بارش پر منحصر ہے۔ بارشوں کا پانی تالابوں اور جھیلوں میں جمع کر کے رکھا جاتا ہے، اور کنویں بھی بھر جاتے ہیں، جس سے یہ اگلے ایک سال یا اگلی بارش تک لوگوں اور مویشیوں کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔

پڑھیے: تھر میں اموات: ہم سب ذمہ دار ہیں

لیکن گذشتہ تین سالوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں تباہ کن قحط نے جنم لیا ہے۔ پانی کی کمی اتنی شدید ہے کہ پورے پورے درخت اور جھاڑیاں، جنہیں چارے اور سبزیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، غائب ہو چکے ہیں۔

'کھِپ ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے، جس سے تھر کے روایتی گول چھت والے جھونپڑوں 'چوئنروں' کی چھت بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے گرم ہوا ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ لیکن قحط کی وجہ سے زیادہ درخت غائب ہو چکے ہیں، اور جو باقی بچے ہیں، انہیں دھیان سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔

ربالو سے دو کلومیٹر دور واقع گاؤں اسودر کے رہائشی امیر بخش ہنگورجو کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 20 بکریاں اور 5 اونٹ ہوا کرتے تھے۔ اس میں سے 16 بکریاں اور 3 اونٹ کم خوراک کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، جبکہ باقی اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں بہت جلد بہت کم قیمت پر نہ بیچا گیا، تو وہ بھی جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے۔

ربالو سے تین کلومیٹر دور واقع راناہو گاؤں کے رہائشی پدم سنگھ کا کہنا ہے کہ پانی کی شدید کمی نے خوراک کی کمی کو جنم دیا ہے، جبکہ مقامی لوگوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

لیکن اگر یہ سب نامہربانیاں قدرت کی ہیں، تو اس میں ریاست کا قصور بھی کم نہیں ہے۔

مقامی لوگوں کے علاج کے لیے نہ کوئی ہسپتال ہیں، اور نہ ہی ڈسپنسریاں۔ کئی لوگ ہیپاٹائٹس بی، سی، اور ملیریا سے متاثر ہیں۔

مرد و خواتین اپنے دن کا زیادہ تر حصہ اپنے لیے اور اپنے مویشیوں کے لیے پانی کی تلاش میں گزارتے ہیں، لیکن پانی بہت ہی کم ہے، اور جو ہے وہ بھی آرسینک اور فلورائیڈ سے آلودہ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں پانی کے استعمال سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں۔

پڑھیے: تھر: موت بھرا پانی

مقامی لوگ حکومت کی امداد مانگتے مانگتے اب بیماریوں اور موت کی وجہ سے خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق کسی رکنِ پارلیمنٹ یا کسی وزیر نے ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔

پریتم میگھر کا کہنا ہے کہ "ہم بے یار و مددگار ہیں، اور کوئی بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آیا ہے۔"

ایک اور مقامی فرد میر خان نے شکوہ کرتے ہوئے کہا "ہمارے بچے کبھی اسکول نہیں گئے، کیونکہ کوئی اسکول ہیں ہی نہیں۔ صرف ایک پرائمری اسکول ہے، جس میں ایک ٹیچر تعینات ہے۔ وہ بھی کبھی آتا ہے، اور کبھی نہیں۔ نہ ہی کوئی اسکول کی مناسب عمارت ہے، اور نہ ہی کوئی فرنیچر۔"

لیکن جب ان سے پوچھا کہ اس سب کے باوجود وہ ہجرت کیوں نہیں کرجاتے، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہ دوسرے علاقوں کے بارے میں معلومات ہیں، اور نہ ہی کوئی ایسا ہنر ہے، جس سے وہ دیگر علاقوں میں کام کر کے روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔

بھوک، بدحالی، اور موت، یہی اچھڑو تھر میں سب سے زیادہ ملنے والی چیز ہے۔ لیکن حکومت کو شاید اس کی کوئی فکر نہیں۔

جانیے: تھر :ایک سال میں سیکڑوں بچے ہلاک

لیکن اس علاقے میں جہاں نہ پانی ہے نہ سڑک، نہ بجلی ہے نہ خوراک، ایک موبائل فون کمپنی نے اپنا بوسٹر لگا رکھا ہے، اور صحرا میں شمسی توانائی سے چلنے والا ایک ایزی لوڈ پوائنٹ بھی جہاں پر لوگ شمسی توانائی سے اپنے فون چارج کرتے ہیں۔

اگر ٹیکنولاجی یہاں تک اپنا راستہ بنا سکتی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ کھانا، پانی، اور صحت بھی، صرف اگر حکام چاہیں تو۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔

صاحب خان

صاحب خان صحافی ہیں اور اس وقت چین میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

محمد ارشد قریشی (ارشی) May 08, 2015 10:33pm
بہت بدنصیبی ہے ہماری کہ یہ لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سسک سسک کر مررہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔ وزیر و مشیر یہاں آتے ہیں دعوتیں اڑاتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کی زندگی پر ایک رتی بھی فرق نہیں پڑتا ۔ قدرت تو بہت مہرباں رہی ہے صاحب اس ملک پر لیکن حکمرانوں نے قدرت کی مہربانیوں کا ثمر ان غریبوں تک نہیں پہنچنے دیا ۔ اب بھی اب بھی اگر وہ چاہیں تو یہاں پانی پہنچا سکتے ہیں چھوٹے چھوٹے واٹر پلانٹ لگا سکتے بارش کے پانی کو اسٹور کرنے کا انتظام کرسکتے ہیں لیکن چاہیں تو !!!!
sharminda May 09, 2015 02:50am
Sindh ka corrupt aur laalchi politicians (wadairon) nay sindh ko sirf dako diay hain. Agar aap ko yaad ho Khursheed Shah kay baitay ki shaadi, tu andaza laga saktay hain. Yehi haal sindh kay baaqi politicians ka hai.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024