کوا چلا ہنس کی چال
انقلابِ فرانس سے پہلے یورپ، ایشیاء، افریقا اور دنیا کے دیگر خطوں میں بادشاہی نظام رائج تھا اور پہلی بار جمہوری حکومت کا تصور یورپ میں انقلابِ فرانس کے بعد سامنے آیا۔ جنگِ عظیم اول کے بعد دُنیا بھر میں قومی جمہوریتوں کا نیا دور شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد عالمی سطح پر بادشاہی نظام کی جگہ جمہوریت کی نمائندہ پارلیمنٹ نے لی، انہی تصورات کے تحت یورپ اور مشرقی ممالک میں نئی حکومتوں کا وجود سامنے آیا۔
عالمی سطح پر کم و بیش دو سو سال تک برطانیہ اور فرانس نے اپنی نوآبادیات قائم کیں اور تاریخ میں درج ہے کہ سلطنت برطانیہ کا حجم اتنا بڑا تھا کہ یہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنگِ عظیم دوئم کے خاتمے پر برطانوی نوآبادیاتی دور اختتام پذیر ہوا۔ دو سو سالہ عالمی طاقت کے اس دور میں برطانیہ کا جمہوری نظام، شاہی نظام کے متوازی چلتا رہا، اگرچہ شاہی نظام کو یا تو بے اثر کر دیا گیا، یا صرف حتمی اختیار ان کے پاس رکھا گیا جبکہ فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔
درسگاہوں، کتابوں اور دانشوروں نے شاہی نظام کو آمریت کے ساتھ جوڑا اور اس پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، حتیٰ کہ ہندوستان کے بادشاہی نظام کے خلاف بہت سارے ابہامات بھی مؤرخین کی جانب سے پھیلائے گئے جس کا بنیادی ہدف بادشاہی نظام سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا کرنا تھا۔ اسی کا اثر ہوا کہ ہندوستان آزادی کے بعد جب دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تو خود کو جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کروانے کے لیے ہم نے اپنے حصے میں آنے والی تاریخی عمارات کی تاریخی حیثیت کو مٹانے کی کاوشیں سرکاری سطح پر کرنی شروع کیں جو اب تک کی جا رہی ہیں۔
ہم نے تو اپنے شاندار ماضی کے ساتھ جو برتاؤ کیے یہ ایک الگ باب ہے لیکن برطانیہ جو خود شاہی نظام کے خاتمے کا دعویدار رہا ہے آج اسی برطانیہ نے ریاستی سرپرستی میں شاہی نظام کی باقیات کو زندہ رکھا ہوا ہے اور ان کی حفاظت پر باقاعدہ کروڑوں پاؤنڈز سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔
برطانوی جمہوری نظام آج اپنے شاہی ورثے کو پال رہا ہے۔ ملکہء برطانیہ جو برطانوی شاہی خاندان کی موجودہ سربراہ ہیں، آج عالمی سطح پر شاہی نظام کم و بیش ختم ہونے کے بعد بھی ملکہ ہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑا ہندوستان کا کوہِ نور شاہی خزانے کا اہم ترین حصہ ہے۔ آئیں ذرا تاجِ برطانیہ اور شاہی نظام پر ہونے والے اخراجات اور ریاستی سرپرستی کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے برطانوی جمہوریت شاہی نظام کی محتاج ہے یا پھر شاہی نظام برطانوی جمہوریت کے سر پر۔ شاہی خاندان کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق جو بکنگھم پیلس ان کے زیر استعمال ہے، اس میں کمروں کی مجموعی تعداد 775 ہے، جن میں 188 اسٹاف بیڈ روم، 92 دفاتر، 19 سرکاری کمرے، 52 شاہی مہمان خانے جبکہ 78 باتھ رومز شامل ہیں۔ یہی بکنگھم پیلس شاہی نظام کا مرکزی ہیڈ کوارٹر ہے۔
برطانوی ریاست اس شاہی خاندان کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے، ملکہ برطانیہ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جو عالمی دورے کیے ہیں صرف ایک سال میں ان دوروں پر 35 لاکھ 11 ہزار 337 پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں۔ ان دوروں میں چارٹرڈ جہازوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ یہ رقم ریاست نے خرچ کی۔صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی جمہوری نظام ہر سال ملکہ برطانیہ کو اعزازی طور پر پارلیمنٹری الاؤنس بھی فراہم کرتا ہے۔ شاہی محل میں جو بھی سربراہان مملکت دورہ کرتے ہیں ان کی مہمان نوازی کے اخراجات بھی برطانوی حکومت نے اپنے سر لے رکھے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق ہر سال کم و بیش 50 ہزار افراد کی مہمان نوازی ملکہ برطانیہ کے اس محل میں کی جاتی ہے۔
برطانوی شاہی نظام کی یادگار کو زندہ رکھنے کے لیے ریاست کو بہت سارے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ شاہی دولت خانے میں جو ملکیتی عمارتیں، باغات، عجائب گھر ہیں ان کی مالیت 7 ارب 30 کروڑ پاؤنڈز ہے۔ ان تمام عمارات بشمول محل کی نگرانی پر ہونے والے تمام اخراجات بھی برطانوی حکومت کے ذمے ہیں۔ برطانوی شاہی نظام کے اس شاندار شاہکار محل کو دیکھنے کے لیے ہر سال 70 لاکھ افراد آتے ہیں اور ان افراد کو شاہی محل میں رکھے نوادرات اور تصویری گیلریوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ کو ریاست کا سربراہ یعنی ہیڈ آف سٹیٹ اور کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور یہ عہدہ کسی بھی اور برطانوی شہری کو نہیں دیا جا سکتا۔
درج بالا حقائق کو جاننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے کہ یورپی منصفین اور دانشوروں نے شاہی نظام کو رد کرنے اور اس کو آمریت سے منسوب کرنے کی خاطر سینکڑوں کتابیں لکھ ڈالیں لیکن خود برطانیہ عملی طور پر شاہی نظام کو علامتی ہی سہی مگر آئینی طور پر باقی رکھے ہوئے ہے اور اس شاہی نظام کی رکھوالی خود ریاست کرتی ہے۔
ایک طرف پاکستان کے حکمرانوں کی دوراندیشی کا مظاہرہ کریں کہ یہاں شاہی نظام کے خلاف ایک تحریک برپا ہے بلکہ بادشاہی نظام کی آخری علامات جو شاہی قلعہ لاہور کی صورت میں ہمیں ورثے میں ملیں یہاں کی عمارتیں کھنڈر بن چکی ہیں بلکہ ان عمارتوں کی دیواروں پر کئی کئی فٹ گھاس اور جھاڑیاں اُگ چکی ہیں۔
مغل خاندان کے تاریخی ورثے کو ہم آج اپنا ماضی اور ثقافتی ورثہ سمجھ کر ان کی دیکھ بھال کرنے پر تیار نہیں۔ اس پُرشکوہ شاہی قلعے کی بربادی کے مناظر خود پاکستانی حکمران 68 سالوں سے دیکھ رہے ہیں، جن مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان کو معاشی طور پر مضبوط ہونے کی بناء پر سونے کی چڑیا بنایا، آج ہم ان حکمرانوں کی یادگاروں کو مٹا رہے ہیں۔ آج ہم اپنی تاریخ سے ناآشنا ہیں، قدیم لاہور جو دراصل حقیقی لاہور ہے، اب رکشوں کے دھوؤں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔
آج قدیم لاہور اپنی شناخت کھونے کے غم میں مبتلا ہے لیکن ہماری ریاست کو اور ریاست کے رکھوالوں کو اس تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ زندہ قومیں اپنی شاندار تاریخ پر فخر کرتی ہیں، اپنے ماضی کو تاریخ کی گمنام گلیوں میں کھونے کے بجائے اسے محفوظ کرتی ہیں، لیکن افسوس صد افسوس ہماری ریاست اس سے نابلد ہے۔
ایک طرف برطانیہ اپنے شاہی نظام کی حفاظت کو ریاستی ذمہ داری سمجھتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے تاریخی ورثے کو کھنڈرات میں بدلنے کا منظر ہماری ریاست خود اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور اسے کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ اب تک ہم لوگ حقیقی جمہوریت کے لیے سرگرداں ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ شاہی نظام کے خلاف یورپ کے بیانیے کو اپنا کر ہم اپنے ماضی سے بھی نفرت کرنے کے عادی ہوتے چلے جارہے ہیں۔
تبصرے (9) بند ہیں