پاک و ہند مذاکرات
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جامع دو طرفہ مذاکرات اب ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے تعطل کا شکار ہیں، مگر پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمشنر گوتم بمباوالے کے بیانات سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ دونوں ممالک کے حکام دو طرفہ جامع مذاکرات کی ابتداء کے لیے 'درست ماحول' بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے دو طرفہ جامع مذاکرات کی ابتداء کے لیے کسی شرائط کا ذکر تو نہیں کیا، مگر اس بات کا انکشاف ضرور کیا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریز اور قومی سلامتی کے مشیر اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذاکرات کب شروع کیے جا سکتے ہیں۔ قیاس ہے کہ 'درست وقت' کا تعلق پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات میں پیش رفت سے ہے۔
مگر تحقیقات کس مرحلے تک پہنچی ہیں؟ شروعات تو تیز تر ہوئی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے، یا کم از کم پیش رفت خبروں سے ضرور غائب ہوگئی ہے۔
پٹھان کوٹ حملے کے فوراً بعد دونوں ممالک نے جس محتاط رویے کا مظاہرہ کیا، اس کا فائدہ صرف تب ہوگا جب بات معنی خیز تعاون تک پہنچے۔
پٹھان کوٹ حملے کے بارے میں اب بھی چند بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات نہیں دیے گئے۔ حملہ آور کون تھے؟ کیا انہوں نے بین الاقوامی سرحد عبور کی؟ حملے کے منصوبہ ساز کون تھے؟
ان تمام سوالوں کے نہ صرف حقائق پر مبنی جوابات دیے جانے چاہیئں، بلکہ قانونی بھی تاکہ سرحد کے دونوں جانب انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
فی الوقت محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان تمام خدشات کو فوراً عوامی سطح پر مسترد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
شاید پسمنظر میں اس بات پر عدم اتفاق ہے کہ قابلِ عمل انٹیلیجنس کیا ہے، اور اعتراضات میں کون کون سی باتیں صرف اندازے ہیں، مگر کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست فارنسک تفتیش میں مداخلت کر رہی ہے۔
دونوں ممالک کے وسائل اور جنوری کے اوائل میں ہونے والے پٹھان کوٹ حملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ڈیڑھ ماہ بنیادی حقائق کو باہمی طور پر تسلیم کر لینے اور ہندوستان اور پاکستان کی عوام کے سامنے لانے کے لیے کافی ہونے چاہیے تھے۔
مگر پریشان کن طور پر ایسا نہیں لگتا کہ 2008 کے ممبئی حملوں کی تحقیقات سے کچھ سیکھا گیا ہے۔
شاید وزرائے اعظم کی سطح پر مزید براہِ راست مداخلت کی ضرورت ہے، کیونکہ بہرحال اگر دونوں وزرائے اعظم نواز شریف اور نریندرا مودی کا جرأت مندانہ اقدام نہ ہوتا تو دو طرفہ جامع مذاکرات کبھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کرتے۔
جامع مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں وزرائے اعظم نے یہ بات درست طور پر تسلیم کی کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کو کسی بھی ایک ملک کے ایک مسئلے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
نریندرا مودی نے اس حقیقت کو بالآخر تسلیم کیا کہ تمام مسائل کو چھوڑ کر صرف دہشتگردی پر بات کرنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح دہشت گردی کو ثانوی مسئلہ قرار دینے کی پاکستان کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی تھی.
پٹھان کوٹ حملے نے دو طرفہ جامع مذاکرات کو نقصان نہیں پہنچایا ہے، بلکہ اس حملے سے پاکستان اور ہندوستان کی آپس میں مذاکرات کی ضرورت مزید پختہ ہوئی ہے۔
بلاشبہ معنی خیز تحقیقات ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں اور دو طرفہ جامع مذاکرات کی پہلی کامیابی بن سکتی ہیں۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 17 فروری 2016 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں