جب میں اس گاؤں سے جاؤں گا، تو یہ گاؤں اکیلا ہو جائے گا۔
روتے روتے آؤ میرا آخری دیدار تو کر لو
(پشتو کے شاعر بابا غنی خان کے کلام سے ماخوذ)
سوات وہ دلہن ہے جس کی مانگ بھی اجڑی اور کوکھ بھی، جس کا نوحہ لکھنے والے ہاتھ بھی لکھتے لکھتے شل ہوگئے۔ انتہا پسندی سے لے کر سیلاب و زلزلہ، کون سی قدرتی آفات ہیں جو اس وادی پر نازل نہیں ہوئیں، پھر بھی زندگی رواں دواں ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، بچے کھیلتے ہیں، عورتیں شرماتی ہیں، شہر پھر بسے دیکھو، لوگ پھر ہنسے دیکھو۔
ہاں، سوات وہ دلہن ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر پھولوں نہیں بلکہ پتھروں کی بارش کی گئی ہو۔ فوجی چوکیوں پر اندراج کرواتے جب میں سوات پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ سایہ پھیل چکا تھا۔ آسمان بجھ چکا تھا۔ افق پر پہاڑوں کے اوپر کالی سیاہی نما بادلوں کی ہلکی تہہ ہوا کے دوش پر آہستہ رو تیر رہی تھی۔
پورا چاند ہلکے بادلوں میں ڈھکا اپنے گرد بڑے سے ہالے کا حصار بنائے وادی پر ٹھہرا تھا۔ برقی قمقموں نے پہاڑوں کو اجال دیا تھا۔ جگنوؤں جیسی ٹم ٹم لگی تھی۔ گاڑی بل کھاتے راستوں پر چلی جا رہی تھی۔ چاند بادلوں کی تہہ سے جھانکتا رہا۔ میں آنکھیں میچے لمبی سانسیں لیتا خزاں رسیدہ درختوں کی باس کو پھیپھڑوں میں سموتا رہا۔ کبھی آنکھ کھول کر جگنوؤں کے جھنڈ کو دیکھتا اور آخری نظر ڈال کر آنکھیں پھر بند کر لیتا۔ کسی موڑ سے گاڑی مڑتی تو نیا منظر آنکھوں میں سجانے کو پھر آنکھیں کھول دیتا۔ آنکھ مچولی چلتی رہی، چاند کی بھی میری بھی، وادی دمکتی رہی۔
جب میرے قدموں نے سوات کی زمین کو چھوا تو چاند بادل سے نکل آیا تھا۔ زمین پر اتر آیا تھا۔ ایک پڑھا لکھا گورا چٹا پختون جوان ٹیکسی کی چابی ہاتھ میں پکڑے آنکھوں سے سنجیدہ، چہرے سے مسکراتا ہوا میرے سامنے کھڑا تھا، میرے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا، "صاحب! گھومنے پھرنے آئے ہو؟ ہوٹل جانا ہے؟ کالام کا پروگرام ہے؟ کل صبح آپ کو لے چلوں؟"۔
مینگورہ کے بازار میں چہل پہل تھی۔ مینگورہ کا نقشہ بدل چکا تھا۔ دنیا جہان کے برانڈز یہاں کھل چکے ہیں۔ میرے ذہن میں بسا دس سال پرانا مینگورہ نہیں رہا تھا۔ لوگوں کا رش البتہ جوں کا توں تھا۔
یہیں کسی جگہ دس سال پہلے میرے ایک ہمسفر دوست نے ایک دکان سے قہوہ پلایا تھا جس کی خوشبو میرے دماغ میں موجود ذائقے کی حِس میں آج تک بسی ہوئی ہے، جو اب تازہ ہونے لگی۔ بیتے زمانوں کی یادیں سر اٹھانے لگیں۔ وہ دن جب بات بات پر ہنسی نکلتی تھی، جب جسم میں توانائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی، جب پختونوں کے علاقے میں مینگورہ کے بازار میں کھڑے ہو کر پختونوں کے لطیفے سنائے جاتے تھے تو ان کی نیلی، سبز اور بلوریں آنکھیں ہنس ہنس کر نم زدہ ہو جاتیں اور پھر بچوں کی طرح جھِلمل کرنے لگتیں۔ جب بزرگ سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کاندھے کو تھپکتے گزر جاتے۔
مینگورہ بدل چکا تھا۔ بازار کہیں کہیں سے یادوں میں ہانٹ کرتا رہا۔ میں بازار سے گزرتے سنجیدہ چہروں کو دیکھتا رہا، یادوں سے موازنہ کر کے جلتا رہا۔ چاند پگھلتا رہا۔ شب بسری کا ٹھکانہ دریائے سوات کے کنارے بسا مقام فضاگھٹ تھا۔ اگلی صبح آسمان سے صاف اتری۔ وادی دھوپ نہانے لگی تو میں نے جیپ لی اور سوات کی سڑکوں میں گم ہونے کو نکل کھڑا ہوا۔ مینگورہ کی بے ہنگم ٹریفک سے نکل کر تحصیل کبل کی جانب سفر کرتے مجھے جگہ جگہ دھوپ میں چمکتی سیمنٹ کی بنی پکی رابطہ سڑکیں نظر آئیں جو پہاڑوں میں کہیں اندر بسے گاؤں کو نکلتی تھیں۔
سوات کی تاریخ پر نظر دوڑایں تو یہ وادی کبھی ریاست کا درجہ رکھتی تھی۔ ریاست سوات مغلیہ سلطنت کا ایک صوبہ تھا اور یہاں کے مقامی حکمرانوں کو اخوند کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مغلیہ دور کے بعد 1947 تک یہ ایک نوابی ریاست تھی۔ قیام پاکستان کے وقت وہاں کے اخوند نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔
وادیء سوات اپنی قدرتی خوبصورتی، برف پوش چوٹیوں، ان گِنت جھرنوں اور گلیشیئرز، چراگاہوں، نہروں اور ندیوں، گلیڈز، قدرتی پارکوں، جھیلوں اور گھنے و تاریک جنگلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسے ایشیاء کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ وادی اونچے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور شمال سے چترال اور غذر کے اضلاع، مشرق سے کوہستان اور شانگلہ، جنوب سے بونیر اور مالا کنڈ اضلاع جبکہ مغرب سے لوئر اور اپر دیر کے اضلاع میں جکڑی ہوئی ہے۔
ان گزرے برسوں میں سوات خاصا بدل چکا تھا۔ سڑکیں، ان پر رواں پھل سبزیاں، اور سامان ڈھوتے ٹرک اور اطراف میں کھیتوں کا سبزہ، کھیتوں کو سیراب کرتی نہریں، پانی کی گزرگاہوں پر بنے چھوٹے چھوٹے پل، پینے کے صاف پانی کے ذخیرے، اور جگہ جگہ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کا شکریہ ادا کرتے آویزاں بورڈز۔
وہ جو پانی پینے پلانے اور کھیتوں کو پانی دینے پر جھگڑے ہوا کرتے تھے وہ بھی یقیناً کم ہوئے ہوں گے۔ خشک موسم میں شروع کے کھیت پانی جذب کر لیتے تھے اور اگلے کھیت محروم رہ جاتے، بارش ہو جاتی تو پانی اوورفلو کر جاتا اور سیلاب سا آجاتا تھا۔ اب کم سے کم پانی انصاف سے سب کھیتوں کو مل جاتا ہے۔ یہ خستہ باز خان نے بتایا تھا جوکھیتوں میں چارپائی ڈالے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس کے کھیتوں میں مزدور ٹماٹر چننے میں مصروف تھے۔ چارپائی پر پرانے زمانے کا ریڈیو اور کیسٹ پلیئر پڑا تھا جو چل رہا تھا۔ اس میں کیسٹ لگی ہوئی تھی جو خستہ باز خان نے مدتوں سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔
جب میں اس کی چارپائی پر بیٹھا تو کچھ باتوں کے بعد ملازم لسی کا جگ لے کر آ گیا۔ خستہ باز ساٹھ سال کا بزرگ تھا۔ اس کی آنکھیں سبز، داڑھی چٹی سفید اور رنگت لسی جیسی تھی۔ یہ انتہائی شمال کا سواتی گاؤں تھا جو کہیں بہت اوپر پہاڑ پر آباد تھا۔ صبح کے نو بج رہے تھے۔ ہلکی دھوپ میں نہایا دن تھا۔
میں نے پوچھا خان صاحب یہ پشتو گیت میں کیا کہہ رہی ہے۔ خستہ باز پہلے شرمایا، آنکھیں میچیں، گال پھیلے، دانت جھلکے، سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شرمیلا سا بولا "اپنے حسن سے میں آدھا گاؤں تباہ کر چکی ہوں اور آدھا کروں گی" اور پھر ہم دونوں کی ہنسی نے کھیتوں میں کام کرتے مزدوروں کو چوکنا کر دیا۔ ان پختونوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ پھیلنے لگی تھی۔ ٹماٹر ہر سو بکھرے پڑے تھے۔ ٹماٹروں کے کھیت میں ٹماٹر بھی سرخ تھے اور کسان کا چہرہ بھی۔ انسان کی فطری و جمالیاتی آزادی زندہ باد، سوات پائندہ باد۔
اس دن تحصیل کبل کے چار پانچ گاؤں چھاننے کے بعد میں خوازہ خیلہ کے ایک گاؤں میں رات رک گیا تھا۔ اذان کی آواز جب پہاڑی گاؤں میں شام کی تاریکی کے ساتھ پھیلتی ہے تو وہیں سجدہ کرنے کو دل کرتا ہے جہاں انسان بیٹھا ہو۔ رات سرد تھی۔ یہ ایک ٹاپ تھی۔ نیچے کھیت اندھیرے میں گم تھے۔ دور پہاڑوں پر برقی قمقمے جگمگا رہے تھے۔ چاند ابھی نہیں نکلا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ دیر پہلے یہاں بچوں کی وجہ سے رونق تھی۔ کسان کھیتوں میں کام کاج میں مصروف تھے۔ اب یہاں کچھ نہیں تھا۔ میں جانتا تھا ان گزرتے ہوئے لمحوں نے، اس بیتتی ہوئی شام نے طویل عرصہ میری یادوں میں گیت بن کر گونجنا ہے۔ شب بسری کا ٹھکانہ یہی گاؤں تھا۔ ایک مقامی کسان کے گھر میں لیٹا تمام شب میں دور سے آتی بھونکتے کتوں کی آواز سنتا رہا، نیند کب آ گئی پتہ نہیں چلا۔
اگلی دوپہر قریب میں مٹہ میں واقع ایک گاؤں میں داخل ہوا تو جگہ جگہ بچے کھیل کود میں مگن تھے۔ ان کے گالوں میں ہنسی سے بھنور پڑتے تھے۔ آنکھیں سکڑتی تھیں اور پھر میرا کیمرا دیکھ کر وہ دوڑ لگا دیتے۔ سوات نے پہلے طالبان اور بعد میں فوجی آپریشن بھگتا ہے، بچوں کے ذہنوں میں شاید کوئی ڈر بیٹھا ہے، یہ کیمرا اور لینس دیکھتے ہی گھبرا جاتے ہیں بعض تو ڈر کر رونے لگ پڑتے ہیں۔ جب بچوں میں دہشت پھیل چکی تو میں نے دیکھا وہ ٹولیوں کی صورت میں اپنے اپنے گھروں کے دروازوں پر جا رکے تھے۔ کچھ دروازہ بند کر کے اس کی اوٹ سے جھانکتے اور پھر خود کو محفوظ پا کر ہنسنے لگ جاتے۔
سوات سیلاب اور طالبان کو بھگت کر اب بہت بدل چکا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ سے یو این ڈی پی نے اس علاقے میں بہت کام کیا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس علاقے کے لوگوں سے مل کر ان کی محرومیوں اور مسائل کی داستانیں سن کر ہوا۔ فیض کے کتنے ہی اسباب، کئی چھوٹے پل، چاہ یعنی کنوؤں کے زمانے تو نہیں رہے مگر صاف پانی کے ذخیرے، آبپاشی کی نہریں، رابطہ سڑکیں۔
سڑکیں محض رابطے کا ذریعہ ہی نہیں ہوتی ہیں، یہی سڑکیں نئی زندگی کی نئی راہیں بھی کھولتی ہیں۔ نئے امکانات بھی لاتی ہیں۔ انہی سڑکوں پر رواں مسافر موت سے زندگی تک کا سفر بھی طے کرتے ہیں اور زندگی سے موت کا بھی۔ کبل کی ایسی ہی ایک راہ پر جاٹ کوٹ میں مجھے زور طلب خان مل گیا تھا جس نے ایک سفر کی کہانی مجھے سنائی، زندگی سے موت تک کے سفر کی کہانی، ان سڑکوں کے بننے سے پہلے کی کہانی۔ زور طلب خان اپنے کھیت میں مصروف تھا، اس نے جھک کر مصافحہ کیا، گینتی اپنے کاندھے پر جمائی، کھیتوں میں رکھی چارپائی پر بٹھایا اور باتیں شروع ہو گئیں۔
اِدھر ادھر کی باتوں اور معمولات زندگی جاننے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ چچا تمہارا گاؤں مرکزی سڑک سے چھ کلومیٹر دور اوپر پہاڑ پر بسا ہے تو جب یہ لنک روڈ نہیں بنا تھا (یہ رابطہ سڑک اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ سے بنائی ہے) تو تم کو کیا مشکلات پیش آتی تھیں؟
یکدم اس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی، کاندھوں سے چادر اتار کر گود میں رکھی اور بولا، "میرا باپ راستے میں مر گیا تھا۔ اسے چارپائی پر ڈال کر ہسپتال لے جا رہے تھے۔ یہاں سے سڑک تک کا سفر دو گھنٹوں کا ہوتا تھا۔ جب آدھے راستے میں پہنچے تو میرے باپ نے کہا کہ چارپائی یہیں رکھ دو میں نہیں بچ پاؤں گا۔ ہم چلتے رہے اور وہ درد سے چلاتا رہا، اور پھر چلاتا چلاتا خاموش ہو گیا۔"
زور طلب اتنا کہہ کر چپ ہوا۔ ہم دونوں کو چپ لگ گئی تھی، پھر بولا، "مجھے اپنے باپ سے بہت زیادہ محبت تھا، ہم دونوں کھیتوں میں ساتھ کام کرتا، میرے باپ کا شادی جلدی ہو گیا تھا تو میری اور اس کی عمر میں بس اٹھارہ سال کا فرق تھا۔ ہم دونوں کو باہر کا لوگ بھائی سمجھتا تھا۔ اب اس کے بغیر کھیتوں میں کام کرنے کا ویسا دل نہیں کرتا مگر گھر تو چلانا ہے۔"
نمی جب خان کی آنکھوں میں جھلکی تو میں نے موضوع تبدیل کرنے کے لیے فصلوں اور پھلوں کی باتیں شروع کر دیں۔ پھر قہوہ آیا۔ باتوں سے باتیں نکلتی رہیں۔ گاؤں کے بچے وقت کے ساتھ مانوس ہو چلے تھے۔ وہ پھر سے کھیلنے لگے۔ مجھے آ آ کر چھیڑتے اور پھر بھاگ کر دور کھڑے ہو جاتے۔ دو گھنٹے اس گاؤں میں گزارنے تک میں بچوں کا دوست بن چکا تھا، کھیتوں میں میرے اردگرد بزرگوں کی بیٹھک جم چکی تھی۔ سورج ڈھلنے لگا تھا۔ بچوں اور بڑوں کی ہنسی کھیتوں، باغوں اور منسلک گلیوں میں رہ رہ کر گونجتی تھی۔
جب میں رخصت ہوا تو بچے اور بڑے مجھے گاؤں کی حد تک چھوڑنے آئے۔ اس کے آگے پگڈنڈی تھی جس پر میں اکیلا چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے میں نے مڑ کر دیکھا تو بچے وہیں کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر اب سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ شرارتی ہنسی کو ترک کیے چپ چاپ کھڑے بچوں کو میں نے دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں جانتا تھا کہ ان کے اس دور دراز اور الگ تھلگ گاؤں میں عرصے بعد شاید پہلا اجنبی میں آیا تھا۔ چند گھنٹوں پر محیط اس بے نام تعلق نے وقت رخصت انہیں اداس کر دیا تھا۔
جب میں اس گاؤں سے روانہ ہو کر مرکزی سڑک تک پہنچا تو ایک مقامی گاؤں کی سواریوں سے بھری گاڑی گزری جس کے ٹیپ ریکارڈر پر علی ٹکر کی آواز میں پشتو لوک گیت گونج رہا تھا۔ میرا ڈرائیور وہی گیت گنگنانے لگا تو میں نے اسے کہا کہ اس کا اردو ترجمہ کر کے سناؤ۔
"جب میں اس گاؤں سے جاؤں گا یہ گاؤں اکیلا ہو جائے گا۔
روتے روتے آؤ میرا آخری دیدار تو کر لو۔"
کچی پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک تک آتے آتے شام پھیل رہی تھی۔ اس کچی پگڈنڈی کے اطراف میں آڑو اور سیب کے خزاں رسیدہ باغ تھے۔ ایسے ہی کسی منظر کو دیکھ کر میں نے غزل کہی تھی جس کا ایک شعر تھا
سورج کے ہاتھ سبز قباؤں تک آ گئے
پھیلی ہوئی ہیں ہر سو شجر پر اداسیاں
ان خزاں رسیدہ باغوں پر سورج آخری کرنیں بکھیر رہا تھا۔ رابطہ سڑک آنے تک جہاں میری جیپ کھڑی تھی، بچوں کی ہنسی زور طلب خان کے دکھ کے ساتھ مل کر میری سماعتوں میں گونجتی رہی۔ یہ کوئی ایک نہیں ایسی کتنی ہی کہانیاں ہوں گی، وہ رستہ جو اب سڑک پر آدھے سے بھی کم گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے، اس رستے نے اس سے پہلے جانے کتنے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو ہسپتال کے رستے میں اپنے عزیزوں کے کندھوں پر ہی دم توڑ جاتے تھے، پگڈنڈیاں ہی ہوتی تھیں آمد و رفت کے لیے، جن پر بارات بھی میلوں پیدل جاتی تھی اور مریضوں کو بھی چارپائی پر ڈال کر یہ مقامی لوگ میلوں پیدل سفر کرتے تھے۔
چند چند کلومیٹر کی ان سڑکوں نے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ پانی کی گزرگاہوں پر بنے یہ پل دیکھنے میں تو چھوٹے چھوٹے سے ہیں لیکن یہ کوئی ان بچوں سے پوچھے جو اسکول جاتے انہیں پار کرتے ہیں کہ موسموں کی سختی میں ان کے چھوٹے چھوٹے قدموں تلے یہ چھوٹے چھوٹے پل کیسی نعمت ہیں۔ نئے خوابوں کے پل، بہتر زمانوں میں پہنچاتے پل، ماضی اور مستقبل کے درمیان یہ پل۔
خوازہ خیلہ کے گاؤں میں اسکول سے واپس آتے بچے دکھائی دیے جن کے ننھے قدموں کے لیے پانی کے وہ نالے کسی دریا سے کم نہیں ہوتے ہوں گے جن پر اب چھوٹے پل بن چکے ہیں۔ سردی کے موسم میں ان نالوں کو پار کر کے اسکول جانا ان کے لیے کس قدر مشکل ہوتا ہوگا، کوئی بھی اندازہ کرسکتا ہے۔ ایسے پل تنہا نہیں بنے، ان کے ساتھ سڑکیں بھی بنی ہیں۔
اسی گاؤں میں ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔ ابراہیم جیپ ڈرائیور ہے۔ بولا، "صاحب صبح سویرے نکلا کرتا تھا اور کہیں رات کو واپسی ہوتی تھی، پانی کے اِدھر سے ادھر جانے کا راستہ نہیں تھا، بچے بوڑھے یا تو پیدل پار کرتے تھے، یا گاڑی میں، اکثر گاڑی پانی میں بند بھی ہوجاتی تھی، کسی مریض کو لانا لے جانا ہوتا تو اور مشکل تھی، آدھے گھنٹے کا راستہ پہنچتے پہنچتے دو تین گھنٹے لگ جاتے، گاڑی کا الگ نقصان ہوتا تھا۔ بڑی مشکل تھی۔ پر اب سڑک کے بعد راستہ بھی اچھا ہوگیا ہے اور کرائے بھی کم ہوئے ہیں۔ سامان لانے لے جانے میں بھی بڑا آسانی ہوئی ہے مقامی لوگوں کو۔"
وہیں کہیں حاجی حضرت علی مل بھی گیا تھا، اس نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "قسم ہے خدا پاک کی تم لوگ غریب کا کام کرتے ہو بہت اچھے لوگ ہو تو میرا بھی کرو (بابا جی میرے گلے میں لٹکا کیمرا دیکھ کر مجھے میڈیا کا نمائندہ سمجھ رہے تھے)، میں اس عمر میں تمہیں دیکھ کر یہی کہنے وہاں سے آیا ہوں" (بزرگ نے دور کھیتوں کی طرف اشارہ کیا)۔ میں نے احتراماً ہنستے ہوئے کہا "بابا جی میں کام نہیں کرتا کوئی سوائے فوٹوگرافی اور لکھنے کے، مگر بس میں ہوا تو ضرور کروں گا۔"
بابا جی ہانپتے ہوئے بولے "ہمارے کھیتوں کو پانی نہیں ملتا بڑی مشکل سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، میں نے اپنی ساری جمع پونجی لگا کر ان پہاڑوں میں ٹیوب ویل لگوایا ہے، میرا دس لاکھ خرچ آ گیا، وہاں کم سے کم تیس کھیت ہیں، ان سب کو پانی دینے کے لیے پائپ چاہیے جس کا خرچ چھ لاکھ بنتا ہے۔ تم این جی او سے کہو کہ ہمارا کام کر دے ہم تم کو مرنے تک دعائیں دے گا۔"
میں سن کر بولا کہ "بابا جی یہ میرے بس کا کام نہیں مگر یہ بات میں اپنے آرٹیکل میں لکھ کر حکام تک پہنچا دوں گا، خدا نے چاہا تو شاید آپ کا کام اسی وسیلے سے بن جائے"۔ حضرت علی نے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور چلتے ہوئے بولا "میں سمجھ گیا کہ کچھ نہیں ہو سکتا، تم ہم کو اتنی تفصیل نہ بتاتا تو اچھا تھا، ہمارے سب لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہونا خود ہی کچھ کرنا پڑے گا مگر میں ہر این جی او کے بندے کے پاس جا کر کوشش کرتا ہوں کہ ہماری مدد ہو جائے اور ہر بندہ مجھے جھوٹی تسلی دے کر اور وعدے کر کے چلا جاتا ہے، کوئی کام نہیں کرتا، ہم نے خود دس لاکھ لگا کر ٹیوب ویل لگوا لیا اب پائپ چاہیے جس کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں، تم نے ہماری آس ہی توڑ دی ہے یہ سب سنا کر۔"
میں سن کر چپ کھڑا رہا۔ بابا جی مڑے اور واپس چلنے لگے۔ مجھے اس کی چال میں صدیوں کی تھکن نظر آنے لگی۔ نامراد لوٹنا بھی کیسا بوجھل احساس ہوتا ہے۔ دھیان بٹانے کو میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ شام کو واپسی کی راہ لی تو اسی مقام سے گزرنا ہوا۔ چلتی جیپ سے میں نے دیکھا حضرت علی اپنے کھیت میں ٹیوب ویل کے بور کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ عقب میں ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں پر سورج ڈھل رہا تھا۔
دور دریائے سوات پر کونجوں کا غول تھا۔ شفق کی سرخی پانی میں در آئی تھی۔ بڑے بڑے گول پتھر جو شام کی سردی سے نیلے پڑنے لگے تھے۔ خزاں رسیدہ ٹنڈمنڈ درخت۔ دو مزدور سارا دن کام کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹ رہے تھے، اور ایک میں تھا جو دریائے سوات پر اڑتی کونجوں کو دیکھ رہا تھا۔ عقب میں کالام کے برف پوش پہاڑ نظرآ رہے تھے۔
شام سمے دریا کنارے شفق کی سرخی میں گم ہوتی کونجوں کا غول میں تب تک ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا جب تک وہ آسمان کی وسعت میں گم نہیں ہوگیا۔ کونجیں چاہے دریائے چناب پر اتریں یا دریائے سوات میں، جاتے جاتے ایسے کرلاتی جاتی ہیں جیسے زخم خوردہ جاندار۔ یا کم سے کم مجھے ان کی آوازوں میں بڑا دکھ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
چناب پر کونجوں کے قافلے اترتے اور رخصت ہوتے کئی بار دیکھے مگر سوات میں جب ان کا غول اڑا تو آسمان پر بکھرے رنگ آنکھوں میں پگھلنے لگے تھے اور پھر اندر باہر کے سب رنگ مل کر بے رنگے بہہ نکلے۔ اندر وحشت بھرنے لگی تو میں وہاں سے اٹھا اور سامنے نظر آتی زمرد پتھر کی کان پر چڑھنے لگا۔ اردگرد بنے تنگ و تاریک مکانوں اور گلیوں سے گزرتا ایک گھنٹے کی چڑھائی کے بعد میرے سامنے وادیء سوات کا منظر کھلا تو میں وہیں مبہوت کھڑا دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہاں جہاں جگنوؤں کے قافلے اترے ہوئے ہیں وہاں انتہا پسندی نے کیسے قدم جمائے تھے۔
میرے سامنے وادی دمک رہی تھی۔ زمین سے لے کر پہاڑوں کے ٹاپ تک برقی قمقمے روشن تھے جنہوں نے آسمان تک اجال رکھا تھا۔ میرے قدموں تلے بستیاں تھیں جن کی روشنیوں سے میری آنکھیں چندھیائی جا رہی تھیں۔ میری سماعتوں میں ان لوگوں کے جملے گونج رہے تھے جو انتہاپسندی سے متاثر ہوئے تھے اور بعد ازاں فوجی آپریشن کی وجہ سے انہیں سختیاں جھیلنی پڑیں تھیں۔ کرب و خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ میں ٹاپ پر کتنی دیر بیٹھا رہا۔ سوات روشن تھا۔ آسمان روشن تھا۔ چاند روشن تھا۔ آنکھیں روشن تھیں۔ سوات ظلم کی تاریکیوں سے نکل کر نور میں لپٹا تھا۔ پھر میں نے سگریٹ کی مشعل جلائی اور سوچوں کو دھوئیں میں تحلیل کرنے لگا۔
کہیں اوپر کالے پہاڑوں پر بادل چھائے اور جب بادلوں کا پردہ چاک ہوا تو چوٹیاں سفید ہو چکی تھی۔ برف برس چکی تھی۔ چاندنی رات میں سفید چوٹیاں اب جگمگا رہی تھیں۔ دریائے سوات پاس سے بہہ رہا تھا جس کے پانیوں میں چاندی گھلی جا رہی تھی۔ کیا خواب جیسا منظر تھا۔ سوات میں چپ طاری تھی۔ اِکا دکا گاڑی کبھی کبھار سڑک سے گزرتی۔ نبض رک رک کے چلتی تھی۔ پانی تھم تھم کے بہے جا رہے تھے۔ ہائے باد فنا کے چلنے سے پہلے یہ آوارگی کی تنہا رات
اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ
اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈتے رہے
یہ سید مہدی بخاری کے سفرناموں کی سیریز میں تیرہواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (53) بند ہیں