ممتازقادری کی پھانسی: وکلاء کا رویہ 'نامناسب'
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے ایک جج نے ممتاز قادری کی پھانسی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کرنے والے اسلام آباد بار کونسل کے ارکان کے رویئے پر افسوس کا اظہار کیا ہے.
جسٹس دوست محمد خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، 'ہر ایک نے دیکھا کہ کالے کوٹوں والے وکلاء نے، جو ہمیشہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، کس طرح کا برتاؤ کیا، اس طرح نہ صرف حکومتی رِٹ کو نقصان پہنچا بلکہ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی احتجاج کیا'.
جسٹس دوست محمد، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو 2011 میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں قتل کرنے والے ایلیٹ فورس کے کمانڈر ممتاز قادری کی پھانسی کا حوالہ دےرہے تھے، جس کے خلاف رواں ماہ 2 مارچ کو اسلام آباد بار کونسل نے ہڑتال کی.
مزید پڑھیں:ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی
ممتاز قادری کو گذشتہ ماہ 29 فروری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی تھی، سپریم کورٹ نے اپنے 7 اکتوبر 2015 کے فیصلے میں انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے قادری کو یکم اکتوبر 2011 کو سنائی گئی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا تھا.
جسٹس دوست محمد نے اپنی ناراضگی کا اظہار عدنان مشتاق، عمران نذیر اور محمد منشا کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران کیا، جو 21 نومبر 2015 کو جہلم کے علاقے کلاں گجراں میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ 'بیت الذکر' کو نظرِ آتش کرنے کے الزام میں پولیس کی حراست میں ہیں.
مذکورہ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس کی سربراہی جسٹس گلزار احمد کر رہے تھے.
مذکورہ عبادت گاہ کو نذرِ آتش کرنے سے پہلے مشتعل ہجوم نے علاقے میں ایک چپ بورڈ بنانے والی فیکٹری کے مالک اور ملازمین کی جانب سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام پر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی.
یہ بھی پڑھیں:قرآن پاک کی 'بے حرمتی' ، جہلم میں فوج طلب
دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ درخواست گزاروں پر لگائے گئے الزامات کی نوعیت ریاست کے خلاف ایک جرم کے بجائے سنگین ہے.
عدنان مشتاق کے وکیل ایڈووکیٹ انصار نواز مرزا نے اپنے موکل کی درخواست ضمانت کو 20 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کی جانب سےمسترد کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا.
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ملزم اُس ہجوم کا حصہ تھا، جس نے احمدیوں کی عبادت گاہ اور احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی چپ بورڈ فیکٹری کو آگ لگائی تھی.
ہائیکورٹ نے درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے میں بڑھتے جارہے ہیں، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ ملک میں ہر شخص کو اپنی مرضی کا مذہب اور فرقہ اختیار کرنے کی اجازت حاصل ہوسکے، جس کی ضمانت ہمارا آئین بھی دیتا ہے.
عدنان مشتاق نے سپریم کورٹ کے روبرو کہا کہ ان کا نام ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا بلکہ صرف ایک شکایت کنندہ کے ابتدائی بیان کی روشنی میں اسے نامزد کردیا گیا، حتیٰ کہ ابتدائی بیان میں بھی عبادت گاہ اور فیکٹری کو جلانے میں ان کے کردار کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا.
انھوں نے مزید کہا کہ استغاثہ کی کہانی اس حوالے سے درست نہیں کیونکہ 4، 5 سو لوگوں کے ہجوم میں سے تفتیش کاروں اور عینی شاہدین نے انھیں حملہ کرنے والوں کی حیثیت سے شناخت کیا.
تاہم ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل چوہدری زبیر فاروق نے اصرار کیا کہ مذکورہ تینوں ملزمان نے متعدد نامعلوم افراد کے ساتھ احمدیوں کی عبادت گاہ اور فیکٹری کو نذرِ آتش کیا تھا.
یہ مضمون 9 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔