خیبر پختونخوا میں بچھو کا خطرناک نشہ عام
74 سالہ صحبت خان ماضی کو کچھ یوں یاد کررہے تھے: ' میں نے بچھو کے زہر کو نشے کے لیے 60 کی دہائی کے وسط میں استعمال کرنا شروع کیا'۔
یہ ایوب خان کا دور تھا اور صحبت خان کی عمر اس وقت بیس سال تھی۔ وہ اکثر مشہور جلیل کباب ہاﺅس جاتے تھے، جہاں ان کی ملاقات اس دکاندار سے ہوئی جو ہوٹل کے برابر میں ایک یا دو روپے میں بچھو فروخت کرتا تھا۔
اس شخص کو پشاور کے علاقے متنی سے سپلائی ہوتی تی جہاں گرم موسم کے باعث بچھوﺅں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
صحبت خان بتاتے ہیں کہ وہ بچھو کے زہر کے نشے کو ترک کرچکے ہیں۔ برسوں تک اس نشے کی لت کے باعث ان کی آنکھیں اندر دھنس چکی ہیں جبکہ چہرہ زرد اور گال افیم پر انحصار کے باعث کھوکھلے ہوچکے ہیں، وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ' ایک نشہ سے دوسرے نشے کو شکست دی جاتی ہے'۔
افیم کی لت کے ان پر بہت زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے اور صحبت خان کے بقول افیم کے اثرات بچھو کے زہر کے نشے کے مقابلے میں بہت زیادہ محفوظ ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ ان کا جسم اس بڑے نشے کو برداشت کرنے کے لیے بہت بوڑھا ہوچکا ہے مگر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب وہ اس کی خواہش محسوس کرتے ہیں. " حشیش اور ہیروئن کا خودساختہ ریلیف بچھو کے سامنے کچھ بھی نہیں"۔
آگ کے کش
انہیں یاد ہے کہ بچھو کے نشے کی لت کے دوران وہ دیوانوں کی طرح اپنے گھر اور گاﺅں کے درمیان چکر لگا کر بچھوﺅں کو تلاش کرتے تھے۔ اکثر جب ان کی خواہش قابو سے باہر ہوجاتی اور کوئی بچھو ہاتھ نہ آتا تو وہ پشاور کا رخ کرتے۔ وہ کہتے ہیں:" یہ نشے کی لت کی بدترین قسم ہے"۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس کے انتظامات کے لیے بہت زیادہ وقت اور توانائی صرف ہوتی۔ ایک مردہ بچھو کو پہلے سورج کی روشنی میں خشک یا کوئلے سے جلایا جاتا، اس کے لیے ایک کوئلہ روایتی چولہے میں رکھا جاتا اور بچھو کو اس وقت تک اس میں پکایا جاتا جب تک وہ مر نہیں جاتا۔
صحبت خان کے مطابق " میں آگ سے خارج ہونے والے دھویں کے کش لگاتا"۔
حالانکہ یہ بچھو کی دم ہوتی ہے جس کی نشہ کرنے والوں کو خواہش ہوتی ہے، اس کا زہریلا ڈنک اس خطرناک ترین نشے کے لیے چاہئے ہوتا ہے۔
انڈیا، جہاں کی کچھ ریاستوں میں اس نشے کا استعمال عام ہے، میں جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہ تیزرفتار اور زیادہ مہنگا ہے۔لوگ بچھوﺅں کو ہاتھ میں پکڑ کر کچھ مخصوص جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور نشے باز 'مزے کے لیے' وہاں آتے ہیں، وہ ہر ڈنک کے بدلے میں سو سے ڈیڑھ سو انڈین روپے ادا کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں کچھ لوگ دم کو حشیش اور تمباکو کے ساتھ ملا کر سیگریٹ میں جلا کر استعمال کرتے ہیں۔ صحبت خان کا طریقہ کار مختلف تھا اور وہ نشے کو جسم کا حصہ بنانے کے لیے ایک چھوٹے پائپ کو استعمال کرتے۔
اس نشے کا اثر لگ بھگ دس گھنٹے تک برقرار رہتا ہے، اولین چھ گھنٹے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں جس کے دوان جسم اس کے اثرات کے مطابق ایڈجسٹ کررہا ہوتا ہے۔ صحبت خان کے مطابق آہستہ آہستہ تکلیف کا احساس مزے میں بدلنے لگتا ہے " ہر چیز لگتا ہے رقص کرنے لگی ہے، سڑکیں، گاڑیاں، غرض ہر چیز جو میرے سامنے ہو"۔
دیگر نشوں سے زیادہ خطرناک
ماہرین کے مطابق بچھو کے زہر کے کش لگانا انسانی دماغ کے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ بچھوﺅں کی 1750 اقسام میں سے 25 انسانوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، دیگر اقسام اگر ڈنک مارے تو ہلاکت تو نہیں ہوتی مگر ڈاکٹر اعزاز جمال کے مطابق ان کا زہر دیگر منشیات کے مقابلے میں زیادہ مضر ضرور ثابت ہوتا ہے۔
خیبر ٹیچنگ ہاسپٹل کے ڈاکٹر اعزاز جمال بتاتے ہیں: " بچھو کے زہر کا نشہ مختصر اور طویل المعیاد یاداشت کے خاتمے کا باعث بنتا ہے"۔
ان کے بقول جو شخص اس نشے کا عادی ہو اس میں سونے اور کھانے کے امراض بھی ہوسکتے ہیں جبکہ وہ ہر وقت دماغی ہیجان کی کیفیت میں ہوتا ہے۔
وہ اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں: " اس نشے سے انسان خواب و خیال کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، یعنی ایسی کیفیت میں جہاں اس شخص کو اپنے ارگرد ایسی چیزوں کا تصور کرنے لگتا ہے جو وہاں نہیں ہوتیں"۔
"اس لت کے حوالے سے زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے کیونکہ اس کے عادی افراد کی شناخت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس نشے کے عادی اس کے لیے خفیہ مقامات کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ اس حوالے سے کسی سرکاری سطح پر کوئی ڈیٹا بھی دستیاب نہیں۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ آفس نے اپنی رپورٹس میں اس حوالے سے کوئی تفتیش نہیں کی ہے۔"
بچھوﺅں کا قتل
بچھو کے زہر کے نشے کی لت خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ اگرچہ اس کے عادی افراد کے حوالے سے کوئی مستند اعدادوشمار تو دستیاب نہیں، مگر تحقیق سے اس نشے کو استعمال کرنے کے رجحان کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا ہے۔
عظیم اللہ کے پی کے محکمہ انسداد منشیات کے سابق عہدیدار ہیں اور انہوں نے صوبے بھر میں کئی برسوں تک سفر کرکے بنوں، کوہاٹ، کرک، لوئر دیر، اپر دیر، چارسہد اور بٹ خیلہ میں اس نشے کے عادی افراد کو دریافت کیا ہے۔ وہ تعداد تو نہیں بتاتے مگر ان کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشہ کوئی نایاب چیز نہیں۔
اس لت کے حوالے سے پاکستان میں قوانین نہ ہونے پر عظیم اللہ کا کہنا ہے " ہمیں بچھوﺅں کو مارنے سے روکنے کے لیے قوانین کا اطلاق کرنا چاہیے"۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ بچھوﺅں کو امراض جیسے کینسر اور ایڈز کے خلاف ادویات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب تک اس کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جاتا ہے، بچھو کے زہر کی لت طبی مقاصد کے لیے اس کی دستیابی کے لیے خطرہ بنی رہے گی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں