• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان کرکٹ کی تباہی میں سینئرز کا کتنا کردار؟

شائع June 2, 2016
کیا 'سینیئر' ٹیم مینیجمنٹ کے 'تجربے' کا یہی فائدہ ہے کہ وہ فاش غلطیاں بار بار کرتے رہیں؟ اگر نہیں تو پھر ایسے تجربے اور ایسی سنیارٹی کا فائدہ ہی کیا ہے؟
کیا 'سینیئر' ٹیم مینیجمنٹ کے 'تجربے' کا یہی فائدہ ہے کہ وہ فاش غلطیاں بار بار کرتے رہیں؟ اگر نہیں تو پھر ایسے تجربے اور ایسی سنیارٹی کا فائدہ ہی کیا ہے؟

''کرکٹ ایسا کھیل ہے جو ہنساتا کم اور رلاتا بہت ہے۔''

یہ الفاظ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی کے ہیں۔ ان کی اس بات کو حقیقت تب مانا جب گذشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی ٹیم کو پہلے ہی راؤنڈ سے انخلا کا سامنا کرنا پڑا۔

اور ان ہی لمحات نے اک بھولا سبق پھر سے یاد دلا دیا کہ ''قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔''

یہ وہی شاہد آفریدی ہیں جو عرصہءِ دراز سے مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں قومی ٹیم کے لازمی جزو مانے جاتے تھے مگر اب تو وہ ماضی قریب میں سلیکشن کے ریڈار میں ہی نظر نہیں آتے۔

''بوم بوم'' کے لقب سے شہرت پانے والے شاہد آفریدی کی یہ بدقسمتی کہیں یا پھر دیگر بڑے بڑے قومی کرکٹرز (ماسوائے عمران خان) کی طرح کریئر کے افسوسناک انجام میں ایک اور اضافہ۔

شاہد آفریدی کو واپسی کا پروانہ تھمانے والے وہی انضمام ہیں جو کرکٹ بورڈ سے گزارش کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے انٹرنیشنل کریئر کا الوداعی میچ کھیلنے میں کامیاب ہوئے، اور گراؤنڈ سے روتے روتے رخصت ہوئے تھے۔

اسے جلد بازی کہیں یا کچھ اور، شاہد آفریدی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل یہ اعلان کر بیٹھے کہ وہ اپنے کریئر کا آخری ٹورنامنٹ کھیلنے جا رہے ہیں۔ پھر نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ ٹی ٹوئنٹی سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے ہی مکر گئے، اور صرف کپتانی چھوڑنے پر اکتفا کیا۔

گھوم پھر کر بات اسی نکتے پر آ کر رک جاتی ہے کہ ہمارے کرکٹرز ہوں یا کرکٹ بورڈ حکام، کوئی بھی کرسی چھوڑنے اور اختیار و عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

میرا اشارہ صرف چیئرمین پی سی بی شہریار خان یا ان کے سرپرست نجم سیٹھی کی طرف ہی نہیں، بلکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے کسی آسیب کی طرح کرکٹ بورڈ کے در و دیوار سے چمٹے رہنے والی کچھ 'بڑوں کی نشانیوں' کے طرف بھی ہے جن کے ہوتے ہوئے پاکستان کرکٹ میں بہتری کی امید رکھنا بھی دیوانے کے خواب جیسا لگتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ انتخاب عالم 70 کی دہائی میں پاکستان کی اولین ون ڈے ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے۔ پھر 1992 میں جب پاکستان پہلی بار عمران خان کی سحر انگیز اور ولولہ خیز قیادت میں ورلڈ چیمپیئن بنا، تب ٹیم منیجر کے فرائض انتخاب عالم ہی سرانجام دے رہے تھے۔

پھر ذرا سا وقت کی سوئی کو تیز دوڑائیں اور 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے ساتھ کھڑے منیجر کو غور سے دیکھا جائے، تو پھر وہی انتخاب عالم ہی مسکراتے ہوئے دکھائی دیں گے، یہ الگ بات ہے کہ 2009 کی ورلڈ چیمپیئن قومی ٹیم میں شامل آدھے کھلاڑی ایک دوسرے سے بات کرنا تک گوارا نہ کرتے تھے، اگر یقین نہ آئے تو سابق کپتان شعیب ملک سے پوچھ لیں۔

ان ساری باتوں کے باوجود انتخاب عالم ہر دور میں پی سی بی کے آنگن کی رونق اور پاکستان کرکٹ کے آسمان کا تارا بنے رہتے ہیں۔

کھلاڑیوں کی بات کریں تو شاہد آفریدی خراب پرفارمنس کے باوجود ریٹائرمنٹ لینے اور کھیل کو باعزت طریقے سے خیرباد کہنے پر تیار نہیں، انضمام الحق ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اور میچ کھیلنے کی درخواست کر بیٹھتے ہیں، یونس خان ون ڈے ٹیم سے ڈراپ کیے جانے پر میڈیا کے سامنے شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں، اور ان سب سے اوپر جناب شہریار خان صاحب، جنہیں ایک دفعہ پھر کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔

بھلے ہی جناب شہریار خان صاحب کی کرکٹ بورڈ میں حیثیت کٹھ پتلی کے جیسی ہے، چاہے فیصلے کا اختیار پس پردہ موجود 'طاقتور شخصیت' کو ہی کیوں نہ ہو، مگر بات نکلے گی تو موردِ الزام تو چیئرمین شہریار خان ہی ٹھہرائے جائیں گے نا؟

اب اتنے بھی بھولے نہیں ہیں شہریار خان، وہ اکثر و بیشتر اپنی شعلہ بیانی سے موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جیسے گذشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ہوا تھا جب قومی ٹیم کی کشتی ناکامیوں اور مشکلات کے بھنور میں گھری ہوئی تھی، تو ایسے میں چیئرمین صاحب بجائے اپنی ٹیم اور کھلاڑیوں کی ڈھارس بندھانے کے، فرمانے لگے کہ ''بھئی ہماری ٹیم سے جیتنے کی امید نہ رکھی جائے۔ ان لڑکوں میں تو وہ بات ہی نظر نہیں آتی۔''

ان سے کئی گنا بہتر اور مثبت سوچ تو ویسٹ انڈیز کے پلیئرز کی تھی جنہوں نے ٹرافی کو بوسا دینے سے پہلے ہی براوو کی آواز میں ''چیمپیئن چیمپیئن وی آر چیمپیئن'' کا نغمہ تیار کر کے دنیا کو بتا دیا کو نیت صاف اور خود پر یقین ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔

چیئرمین شہریار خان کے حالیہ بیان نے تو پلیئرز کو کافی دکھی اور اپ سیٹ کر دیا ہے جس میں انہوں نے اکثر پلیئرز کو ان پڑھ ہونے کا طعنہ مارا ہے۔ اب تو پلیئرز بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا شہریار خان کو دل جلانے کے لیے ہی چیئرمین رکھا گیا ہے؟

ایک طرف ہمارے کرکٹ بورڈ کا یہ حال ہے کہ صاحبِ اختیار لوگ 'سب ٹھیک ہے' اور 'مٹی پاؤ' کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، تو تصویر کا دوسرا رخ ہمیں اس تلخ حقیقت سے روشناس کرواتا ہے کہ قومی ٹیم ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں نویں نمبر پر براجمان ہوچکی ہے، جو ماضی میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔

اور اس پر حد یہ ہے کہ تمام ہی کھلاڑیوں کا اصرار ہے کہ ان کی کارکردگی میں کوئی سقم نہیں، اور انہیں ٹیم میں برقرار رکھنا چاہیے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر کارکردگیوں میں مسئلہ نہیں، تو پھر ٹیم نویں نمبر پر کیوں ہے؟

اس سے بڑھ کر شرمندگی کی بات کیا ہوگی کہ پاکستان کو ایسوسی ایٹ ممالک کے ساتھ ورلڈ کپ کا کوالیفائنگ راؤنڈ ہی نہ کھیلنا پڑجائے۔ اور اگر خدانخواستہ کسی چھوٹی موٹی ٹیم نے کوالیفائنگ راؤنڈ میں قومی ٹیم کو ناکوں چنے چبوادیے تو اس سے بڑی سزا کیا ہوگی؟

بار بار قوم کے سامنے فریش ٹیلنٹ ڈھونڈنے کی ڈگڈگی بجائی جاتی ہے، مگر اس کام کے لیے گویا مکمل بھروسہ پاکستان سپر لیگ پر کر کے سب نے ہاتھ جھاڑ لیے۔ پی ایس ایل کے افتتاحی ٹورنامنٹ میں ہی جن کھلاڑیوں نے ذرا سی بہتر کارکردگی دکھائی، انہیں بین الاقوامی معرکے کے لیے بھیج دیا گیا۔

کیا 'سینیئر' ٹیم مینیجمنٹ کے 'تجربے' کا یہی فائدہ ہے کہ وہ ایسی فاش غلطیاں بار بار کرتے رہیں؟ اگر نہیں تو پھر ایسے تجربے اور ایسی سنیارٹی کا فائدہ ہی کیا ہے؟

یہ پاکستان کرکٹ ہے۔ ہمارے ملک کی طرح کرکٹ میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسی کسی بھیانک اور اندوہناک صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے شائقینِ کرکٹ اور قومی ٹیم کے چاہنے والے ذرا دل تھام کے بیٹھیں، اور کھلاڑیوں سے جیتنے کی توقع بالکل بھی نہ رکھیں کیونکہ کھلاڑیوں میں وہ بات نہیں اور کرکٹ ایسا کھیل ہے جو ہنساتا کم اور رلاتا بہت ہے۔

آفریدی صاحب کو شاید کرکٹ کے کھیل پر رلانے کا الزام عائد کرنے کے بجائے ان لوگوں کا نام لینا چاہیے جن کی وجہ سے ہم رونے کے مقام تک پہنچ چکے ہیں۔

ورنہ یہی کھیل ہے جو دوسروں کو ہنساتا ہے اور ہمیں رلاتا ہے۔


آپ کے خیال میں پاکستان کرکٹ کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ تبصروں میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

کلیم راجڑ

کلیم راجڑ اسپورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ مختلف سندھی اخبارات میں تجزیے اور کالم لکھتے رہے ہیں اور ایک سندھی روزنامے سے منسلک ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

santosh Meghwar Jun 02, 2016 05:38pm
Behtreen..
A Sindhi Jun 02, 2016 05:49pm
Nice work dear Kaleem Rajar, keep it up.
Nabeel Ahmed Jun 02, 2016 06:01pm
Good story dear, ur observation is very good about it.
Zubair Alam Jun 02, 2016 06:00pm
بہت خوب
abid ur rehman Jun 02, 2016 07:11pm
کافی دلچسپ تحریر ہے، کرکٹ کی بھتری کے لیے تجاویز بھی شامل کرتے تو اور بھی بھتر ہوتا
Arif Hussain Maka Jun 02, 2016 08:07pm
kafi achi chez ko wath out kya he ap ne good work
Burfat ghulam rasool Jun 02, 2016 08:10pm
kaleem briefs us about tragedy of paksitani cricket and associate persons. I read his story, he define the reasons and other facts which demolish the basic aims of cricket. unfortunately cricket of pakistan not presenting the all nations of this region, one region dominated here, and thats basic reason.
Imran Ullah Jun 02, 2016 08:40pm
زبردست..

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024