روح افزا، رمضان اور پاکستان: لال شربت کی کہانی
1906 میں وائسرائے لارڈ منٹو کے زیر نگرانی متحدہ ہندوستان بحران کی زد میں تھا۔ یہ شملہ وفد کا بھی سال تھا۔ جبکہ اسی سال حکیم عبدالمجید نے ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں ہمدرد دواخانہ کی بنیاد رکھی تھی۔
جڑی بوٹیوں کی ایک چھوٹی سی دکان سے شروع ہونے والا ہمدرد زبردست انداز میں آگے بڑھتا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد ہمدرد دواخانے کا کراچی میں 19 جون 1948 کو افتتاح کیا گیا۔
ان 68 سالوں میں اس گروپ نے پاکستانی طرز زندگی پر جو نقوش چھوڑے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
یہ گروپ جہاں اپنی کئی دیگر مصنوعات، جن میں ہربل دوائیں اور ہمدرد مطب شامل ہیں، کی وجہ سے مقبول ہے، لیکن ہمدرد کا وہ پراڈکٹ جو میرے دل کے سب سے زیادہ قریب ہے، روح افزا ہے۔ دیگر پاکستانیوں کی طرح میرا بھی افطار کے لیے لازم اس مشروب سے تعلق رمضان کی وجہ سے ہے۔
مشروبِ مشرق
2013 کی بولی ووڈ بلاک بسٹر فلم ''یہ جوانی ہے دیوانی'' میں رنبیر کپور سے روح افزا کا ذکر سن کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے خود سے کہا، ''ہیں؟ کیا؟ ان کے پاس بھی روح افزا ہے؟''
یہ شربت پاکستان اور ہندوستان بھر میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں یہ شربت ہمدرد لیبارٹریز (وقف) میں تیار ہوتا ہے، جبکہ ہندوستان میں اس مشروب کو ہمدرد (وقف) لیبارٹریز میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں میری عدم معلومات شاید ایک حد تک میری لاعلمی ہو، مگر اس لاعلمی کی بڑی وجہ اس مشروب کی مارکیٹنگ کا انداز ہے۔
پاکستان میں اس پراڈکٹ کا رمضان سے تعلق محض ایک اتفاق کی بات نہیں ہے۔
2012 میں جب پاکستان کا یوم آزادی رمضان میں آیا تھا تب کمپنی نے 14 اگست 1947 کی یاد تازہ کرنے کے لیے ایک اشتہار شایع کروایا تھا، کیونکہ 1947 میں 14 اگست کو رمضان کا 27 واں روزہ تھا — جسے مسلمان شب قدر کے طور پر مناتے ہیں۔
اس اشتہار میں تحریر تھا کہ، ''وہ جذبہ ہی اور تھا''
روح افزا نے طویل عرصے سے پاکستانیوں کے جذبہء حب الوطنی کی توجہ حاصل کی ہے۔ 1987 میں اسی برانڈ کی جانب سے شایع ہونے والے ایک اشتہار میں اس مشروب کو بطور 'روح پاکستان' کہا گیا۔ اس میں مزید تحریر تھا کہ ''پاکستان سے محبت کرو — پاکستان کی تعمیر کرو۔''
یہ جملے ہمدرد کے اپنے نصب العین ''We serve Nations'' (ہم قوموں کی خدمت کرتے ہیں) میں سموئے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
مگر واضح رہے کہ اس اشتہار کا واحد یہی مقصد نہیں ہے۔ یہ اشتہار اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ روح افزا جیسی اور کوئی سوفٹ ڈرنک نہیں ہے۔
سافٹ ڈرنکس کا بادشاہ
1906 میں روح افزا کے مارکیٹ میں آنے سے لے کر 1987 میں اس اشتہار کے شایع ہونے تک کے درمیان کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 1979 میں پیپسی نے پاکستان میں قدم رکھا۔ کوکا کولا پاکستان میں 1953 سے ہی موجود ہے۔ ان شروعاتی دنوں سے ہی سوڈا ڈرنکس نے اشتہارات میں صحتمند طرزِ زندگی اور اپنے درمیان تعلق بتایا ہے۔
انہوں نے پایا کہ جب صحت اور کھیل کی بات ہو تو پاکستان میں کوئی چیز کرکٹ کی طرح پراڈکٹس کو فروخت نہیں کروا سکتی۔ کوک 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی 'آفیشل سوفٹ ڈرنک' تھی۔ 1990 کی دہائی کی شروعات سے پیپسی پاکستان کرکٹ ٹیم کی اسپانسر شپ میں غالب آ گئی — اس شعبے میں یہ اب بھی نت نئے طریقے ڈھونڈتی رہتی ہے۔
مگر روح افزا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، اور وہ خود کو 'سوفٹ ڈرنکس کی دنیا میں حرف اول اور حرف آخر'' کہلواتا رہا۔
یہ واضح تھا کہ ہمدرد کے نزدیک حریف صرف مارکیٹ میں موجود دیگر سرخ شربت ہی تھے۔ ان تمام سرخ شربتوں کو روح افزاء کا جواب یہ تھا کہ: ''نقل کرنا خوشامد کی ایک بہترین صورت ہے؛ مگر آپ کی بدقستمی ہے کہ روح افزا کی نقل نہیں کی جا سکتی۔''
اس شربت نے 1989 میں اپنی کامیابی کی خوشی میں ایک ایسا ہی اشتہار دیا۔ ''روح افزا سے ملتے جلتے دیگر مشروبات صرف رنگ نقل کر سکتے ہیں لیکن اس کا ذائقہ، خوشبو اور اس میں موجود ٹھنڈک فراہم کرنے والے اجزا میں صرف روح افزا ہی نرالا ہے۔'' صرف روح افزا ہی روح افزا ہے۔
ایک عمر رسیدہ دانا شخص کی طرح روح افزا نے اپنے صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔ جبکہ میدان میں کسی نئے کھلاڑی کی طرح شیزان کے ثمر قند نے اپنے روشن مستقبل کے خیال کو ظاہر کرتے ہوئے جواب دیا۔
1989 میں شایع ہونے والے اس اشتہار میں تحریر تھا کہ ''وہ ذائقہ جو آگے سالوں تک رہے گا''۔ اس کے علاوہ اشتہار طنزاً کہتا ہے کہ، ''شاید کسی دن دوسرے بھی ایسا مشروب بنانے کے قابل بن پائیں گے۔''
ماضی سے واپس آتے ہیں
آج لال شربتوں کے درمیان دشمنی شاید اتنی شدید نہ ہو جیسی 1980 کی دہائی میں تھی، لیکن یہ آج بھی موجود ضرور ہے۔
کراچی میں ڈرائیونگ کے دوران میری نظر ایک بل بورڈ پر پڑی جس میں پکوڑوں کی ایک پلیٹ کے ساتھ روح افزا کی ایک بوتل رکھی ہوئی تھی اور اس پر لکھا تھا کہ ''رمضان میں اور کیا چاہیے!'' یہ عبارت سوال نہیں کر رہی، بلکہ آپ کو بتا رہی ہے۔
جہاں ایک بل بورڈ پر روح افزا نے افطار کی میز پر قبضہ کیا ہوا ہے، وہیں اگلے ہی سگنل پر ایک اور بورڈ پر ثمرقند خود کو گرمی کا بہترین حل بتا کر اپنی مارکیٹنگ کر رہا ہے۔
آپ کے ذائقے یا پھر آپ کے میزبان کی ترجیح کے مطابق روح افزا، ثمرقند، یا قرشی جام شیریں جیسے لال مشروبات کا زیادہ تر افطار کی میزوں پر دکھائی دینا یقینی ہے۔
رمضان شروع ہونے سے پہلے انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ایک تصویر پاکستان کی لال شربتوں کے ساتھ محبت کی بہترین انداز میں ترجمانی کرتی ہے۔
ایک تصویر جس میں گیم آف تھرونز کا ایک کردار ٹائریئن لینسٹر ایک کپ میں سرخ وائن بھر رہا ہے، اس میں کچھ تبدیلیاں کر کے وائن کی جگ پر روح افزا کا لوگو بنا دیا گیا اور تصویر پر 'رمضان مبارک' لکھ دیا گیا۔
آپ بھی بتائیے: آپ کے نزدیک سب سے بہترین لال شربت کون سا ہے؟ روح افزا، ثمرقند، جام شیریں، یا کوئی اور شربت جو یہاں درج نہیں۔ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔
— خاکہ نگاری: فہد نوید | اشتہارات بشکریہ ہیرالڈ میگزین
فہد نوید چائے کے شوقین کراچی والے ہیں، وہ اس وقت ڈان میڈیا گروپ میں بطور ملٹی میڈیا صحافی کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں : fahadnaveed@
فہد نوید ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں : @fahadnaveed
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔