چاہ بہار سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے، پاکستان کو کون سے معاشی و سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے، دنیا کے بیشتر افراد، ادارے اور ممالک جانتے ہیں مگر پاکستان کی صفِ اول کی سیاسی قیادت کا ان حساس معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔
دنیا میں آگئے بڑھنے کی لگن اور اقتصادی ترقی کی خواہش نے عشروں سے عوامی جمہوریہ چین کو صدیوں پرانے سلک روٹ کی بحالی کے لیے انگیختہ کر رکھا تھا جس کو 46 ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں حتمی شکل دی گئی تو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اسے اپنی حکومت کی کامیابی قرار دیا مگر یہ بھول گئے کہ اس منصوبہ کو ملکی و عالمی سطح پر کن چیلنجز کا سامنا ہے۔
یہ گیم چینجر منصوبہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی پالیسیوں، اس کے چند گرم دماغ رہنماؤں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے اس حد تک متنازع بن چکا ہے، کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کے مطابق اقتصادی راہداری کا روٹ تبدیل کر کے چھوٹے صوبوں کو ثمرات سے محروم رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اگر فوج اسٹیک ہولڈر نہ ہوتی تو شاید یہ عظیم منصوبہ دوسرا کالا باغ ڈیم ثابت ہوتا اور آج تک اس پر کمیٹیوں پر کمیٹیاں قائم ہو رہی ہوتیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کی اقتصادی ترقی میں کلیدی اہمیت کی حامل قرار پائے گی، اور اس راہداری کا سب سے اہم اور بنیادی پروجیکٹ گوادر کی بندرگاہ ہے۔
پڑھیے: چاہ بہار، گوادر پورٹ کی حریف نہیں: ایران
گوادر کا محلِ وقوع اسے بحرِ ہند تک آسانی رسائی، خلیج فارس اور خلیج عمان کی قربت کے ساتھ وسطیِ ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ تک رسائی دیتا ہے۔
گوادر جنوبی ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے جہاں دنیا کی تیل کی سالانہ ضروریات کے دو تہائی ذخائر موجود ہیں، اور یہاں سے تقریباً ایک لاکھ بحری جہازوں کے ذریعہ تیل کی 70 فیصد اور خام مال کی 60 فیصد تجارت ہوتی ہے۔
سیکورٹی کے نقطہء نظر سے بھی گوادر کو اہمیت حاصل ہے۔ یہاں سے ہندوستانی شہروں گوا، گجرات اور ممبئی کے بحری اڈوں کے ساتھ خیلجِ فارس میں امریکا و دیگر ممالک کی بحری و جنگی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر چین 2013 سے گوادر کا انتظام و انصرام سنبھالے ہو ئے ہے لیکن عالمی تجارت کے لیے اپنا جنوبی سمندر براستہ سری لنکا استعمال کرتا ہے جس کے ذریعے بحری جہاز تقریباً 10 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے منزل پر پہنچتے ہیں۔
گوادر سے یہ فاصلہ محض 2500کلومیٹر جبکہ شنگھائی کا گوادر سے فاصلہ 2800 کلومیٹر ہے۔ گوادر پورٹ سے چین کو نقل و حمل میں بے پناہ بچت ہوگی جس کی وجہ سے چین عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات مزید سستی کر سکے گا۔
لیکن عالمی منظرنامے میں آپ کسی ملک کو منصوبہ بندی کے لیے نہیں روک سکتے، چاہے یہ منصوبہ آپ کے مفادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
دنیا بھر میں پاک چین اقتصادی راہداری پر بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ملک ہندوستان نے اس اقتصادی راہداری کو نیچا دکھانے کے لیے چاہ بہار کو مناسب جانا جو ایرانی صوبہ بلوچستان اور سیستان میں موجود ہے۔
مزید پڑھیے: 'چاہ بہار بندرگاہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ'
ہمارے سامنے موجود ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی چاہ بہار کا منصوبہ پاکستان کے لیے خطرہ اور اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے؟
میڈیا کے کچھ حلقوں میں یہ بات بکثرت سننے کو مل رہی ہے کہ چاہ بہار کی تکمیل گوادر پورٹ کی حیثیت اور اہمیت ختم کر دے گی، مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ ہاں اس سے پاکستان کے حصے کا وہ کاروبار ایران کے حصے میں ضرور آئے گا جو گوادر کے ذریعے ہو سکتا تھا، لیکن یہ نقصان اتنا بڑا نہیں ہوگا۔
لیکن نقصان تو بہرحال نقصان ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں نے امریکا اور چین کے تعلقات سے کچھ سیکھا ہوتا تو معقول معاہدے کے بعد ہندوستان کو واہگہ سے افغانستان تک رسائی دینے میں کوئی حرج نہ تھا۔
امریکا اور چین ہر لمحہ ایک دوسرے کے درپے رہتے ہیں مگر اربوں ڈالرز کا کاروبار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
واہگہ سے ہندوستان کو انتہائی مختصر راستہ میسر آنے سے اسے متبادل روٹ کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور پاکستان اقتصادی ثمرات سمیٹ سکتا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی روایتی کشمکش دونوں ملکوں کو متبادل ذرائع ڈھونڈنے پر مجبور کرتی ہے۔
اسی تناظر میں ہندوستان نے پاکستان کو بائی پاس کر کے Sea Land روٹ اختیار کیا۔ ہندوستان نے اسلامی جمہوریہ ایران سے چاہ بہار کی تعمیر کے لیے 500 ملین ڈالر کا معاہدہ کر کے اقتصادی ترقی کی بنیاد تو رکھ دی ہے مگر بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔
انڈین اوشین ریجن کے راستے ممبئی، کولکتہ اور گوا کی بندرگاہوں سے تجارتی سامان بین الاقوامی سمندری راستوں سے چاہ بہار تک لایا جائے گا جہاں سے یہ سامان وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقِ وسطیٰ تک پہنچایا جائے گا۔ ہندوستان اسی روٹ سے وسطی ایشیاء اور ایران سے گیس پائپ لائن اور ایل این جی لانے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے۔
جانیے: ’پاکستان کو چاہ بہارمنصوبے پر کوئی اعتراض نہیں‘
ہندوستان نے 400 ملین ڈالر کی لاگت سے چاہ بہار سے زاہدان اور افغان سرحد تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ 600 کلومیٹر ہائی وے پہلے ہی بنا چکا ہے اور وہ لینڈ لاک افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیاء تک جائے گا۔
افغانستان بھی اس معاہدے میں شامل ہے جو ٹرانزٹ ٹریڈ کے متبادل روٹ کی تلاش میں ہے۔ گوادر اور چاہ بہار سمندر میں تو صرف 75 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں مگر کابل گوادر سے بذریعہ سڑک 1237 کلومیٹر جبکہ چاہ بہار سے 1840 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جبکہ افغانستان کے متعدد شہر بھی چاہ بہار کی نسبت گوادر سے کم فاصلے پر ہیں۔
دنیا کے ڈومین پر قبضے کی اس جنگ میں ہندوستان نے اپنی بساط انتہائی احتیاط سے بچھائی ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایران اپنے طویل المدتی جیو اسٹریٹجک مقاصد کی بناء پر ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کے چین سے بھی اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
اگر ہندوستان ایران سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے تو مایوسی اس کا مقدر ہے۔ ماہرین قرار دیتے ہیں کہ گوادر میں تازہ و گہرا پانی چاہ بہار سے زیادہ ہے۔ پاکستان گوادر پورٹ مکمل طور پر چین کو سونپ چکا ہے مگر ایران نے ایسا نہیں کیا۔ پورٹس اینڈ شپنگ میں چین کی فنی مہارت اور تجارتی مہارت ایران سے کہیں زیادہ ہے۔
ہندوستان افغانستان میں 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کر کے گمان کر بیٹھا ہے کہ افغانستان جیسا شورش زدہ ملک ہمیشہ اس کا ہمنوا رہے گا مگر ہندوستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان پر سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے اثر و رسوخ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
افغانوں کی غالب اکژیت مسلکی بنیادوں پر ایران سے سعودی عرب کو بہتر سمجھتی و مانتی ہے اور سعودی عرب ایران کی معاشی ترقی ٹھنڈے پیٹوں بر داشت نہیں کر سکتا۔
پڑھیے: بلوچستان کے سلگتے مسائل اور عسکریت پسندی
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایشلے ٹیلس کہتے ہیں کہ امریکا کو ہندوستان اور ایران کے درمیان ہونے والے چاہ بہار معاہدے سے کوئی شکایت نہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایران سے پابندیوں کا خاتمہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو چاہ بہار کی تکمیل کا موقع دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
امریکہ سعودی عرب تعلقات میں تناؤ موجود ہے۔ ہندوستان نے روایتی طور پر شمالی اتحاد کی مدد کی ہے۔ کیا طالبان اپنے زیرِ قبضہ صوبوں اور علاقوں سے ہندوستان کو گزرنے کی اجازت دیں گے اور کیا سعودی خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ یہ سوال اہم ہے۔
مزید برآں ہندوستان اور ایران کے مفادات ایک مرحلے پر ضرور متصادم ہو سکتے ہیں۔ جولائی 2015 کے معاہدے کے بعد ایران مذہبی ترویج اور معاشی ترقی کے لیے وسط ایشیائی ریاستوں پر نظر جمائے ہوئے ہے، وہ ہندوستان کو لامحدود فری ہینڈ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔
نیٹو سپلائی سے پاکستان تاحال معاشی ثمرات سمیٹنے میں ناکام ہے۔ اس سپلائی کی وجہ سے انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے مگر فائدہ کوئی نہیں ہوا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والے سامان نے بھی پاکستانی انڈسٹری کو دھچکا دیا ہے، کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والی 90 فیصد اشیاء اسمگل ہو کر یا دیگر ذرائع سے پاکستان میں فروخت ہو رہی ہیں.
اگر سامان پاکستان سے نہیں جائے گا تو پاکستان اسے اپنی حدود میں فروخت کیوں کرنے دے گا؟ افغانستان میں تو بہت سی اشیاء کی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ لہٰذا دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان چاہ بہار سے صرف اتنا متاثر ہوگا کہ نیٹو سپلائی اور ٹرانزٹ ٹریڈ کو متبادل روٹ ملے گا جو ویسے بھی امریکا اور ہندوستان کے لیے مہنگا ہوگا۔
مگر بات صرف چاہ بہار اور اقتصادی راہداری پر ختم نہیں ہوتی۔ خطے میں کئی دیگر معاشی مواقع ہیں جن سے ہم کمزور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، مگر ہندوستان نے اٹھا لیا۔
2013 میں ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہوا، ایران سے گیس پائپ لائن پاکستان سرحد تک پہنچا دی گئی، مگر میاں نواز شریف کی حکومت ایرانی گیس کو امریکی پابندیاں ختم ہونے کے باوجود پاکستان نہ لا سکی اور مہنگی ایل این جی خریدنے قطر جا پہنچی۔
پڑھیے: صحافی کی ڈائری: دورہ گوادر
دوسری جانب ہندوستان عالمی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل خریدتا رہا۔ گیس پائپ لائن کی تکمیل سے سستی گیس میسر آنے کے ساتھ ساتھ ایران کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہوسکتے ہیں جو یقینی طور پر پاکستان کے فائدے میں جائیں گے۔
ایران پاکستان کو بجلی بھی فراہم کرنا چاہتا ہے مگر نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر پاکستان نہیں لے رہا، حالانکہ بجلی کی کمی سے متعدد مسائل جنم لے رہے ہیں۔
پاکستان کو چاہ بہار سمیت ہندوستانی عزائم سے نہیں بلکہ اندرونی کشمکش، بے تدبیری اور کم مائیگی سے خطرہ ہے۔
گلگت بلتستان سے گوادر تک اس روٹ کے راستے میں آنے والی ہر قومیت اور چھوٹے صوبے کو حقوق دیے جاتے، انہیں اس عظیم منصوبے میں معاشی طور پر شامل کیا جاتا تو اس منصوبے کو دہائیوں تک کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا، مگر عزم اور سنجیدگی کی کمی کا یہ عالم ہے کہ گلگت بلتستان کا معاملہ ہی یکسو نہیں کیا جا رہا۔
اقتصادی راہداری کے پہلے مر حلے میں ہی چنگاریاں سلگنے کے لیے رکھنے والی سیاسی قیادت اس عظیم منصوبے کو کیسے کامیاب بنائے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
مگر جہاں تک چاہ بہار اور خطے میں موجود دیگر منصوبوں کی ہے، تو ان سے ہمیں خطرہ نہیں، ہمیں خطرہ صرف ہماری سیاسی قیادت کے رویوں سے ہے۔ یہ رویے جتنا جلد درست ہوجائیں، اتنا ہی ہمارے اور اقتصاری راہداری جیسے عظیم منصوبے کے حق میں بہتر ہے۔
تبصرے (7) بند ہیں