چھوٹا چٹوک: خضدار کا پوشیدہ نخلستان
تجسس آپ میں مسلسل تلاش اور دریافت کے لیے طاقت سے لبریز تحرک پیدا کر سکتا ہے۔ سفر میں ایک خاصیت تو ضرور ہے، وہ یہ کہ سفر آپ کے حواسوں کو بڑی تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت بخش دیتا ہے — آپ کو مسلسل نئے احساسات کا تجربہ ہوتا ہے۔
ہر قدم کے ساتھ ساتھ آپ کچھ نیا دیکھ رہے ہوتے ہیں، وقفے وقفے سے نئی فضا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں نئے تجربے کا اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں سفر آپ کی نشوونما کرتا ہے۔ اسی لیے تو کچھ لوگوں پر سفر کرنے کا جنون سوار کیوں ہوتا ہے جس پر حیرانی بھی کیونکر ہو۔
فوٹو گرافر صہیب رومی، گاڑی میں بیٹھ کر نئے ایڈوینچرز کی تلاش میں خود کو سڑکوں کے حوالے کر دینے کی اپنی عادت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ، "مجھے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ میں جب بھی کسی منزل کی راہ لیتا ہوں تب میرے اندر خوف کی کوئی علامت تک نہیں ہوتی۔"
گزشتہ سال مارچ کی بات ہے جب ایک سفر کے دوران یہ صاحب اور ان کے ہم خیال افراد کا ایک گروہ (جسے سارے مل کر خانہ بدوش کے نام سے پکارتے ہیں) نے مولا چٹوک کو 'دریافت' کیا۔
بلوچستان میں خضدار کے شدید گرم پہاڑوں کے درمیان واقع ہرے پانیوں کی تصاویر پاکستان کے بڑے ٹریول گروپس کے پاس اکثر آویزاں ہوتی ہیں، جس کا ایک کم بخت نتیجہ یہ نکلا کہ اب ملک کے اس خطے میں موجود مولا چٹوک ایک "لازمی جائیے" والے مقامات کی فہرست میں شامل ہو گیا اور اب اس سلسلے کو روکنا کسی کے بس کا کام نہیں۔
جیسے ہی موسم ٹھنڈا ہوتا ہے، تو ‘آزادانہ’ حیثیت میں ٹور کروانے والے اس علاقے اور اس "خفیہ" مقام کی سیر کروانے کی آفرز شروع کر دیتے ہیں، جو اب زیادہ خفیہ نہیں رہا۔ صہیب نے سفر کے دوران وہاں سیاحوں کا پھینکا گیا کوڑا کرکٹ بھی دیکھا تھا، جو کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی سیاحتی صنعت کے لیے خراب تاثر پیدا کر سکتا ہے۔
وہاں پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کراچی سے خضدار تک پہنچنے کے لیے 5گھنٹے کی ایک طویل ڈرائیو درکار ہوتی ہے۔ تھوڑا آگے جائیں گے تو ایک کافی ناہموار ہچکولے دار چٹانی راستہ آپ کا استقبال کرے گا، جس پر کوئی عام گاڑی چلانا ممکن نہیں۔ 4 بائے 4 گاڑی میں سوار ہونے کے سواء آپ کے پاس اور کوئی انتخاب نہیں ہوتا۔
صہیب نے بتایا کہ ’جھل مگسی ریسنگ ٹریک دریائے مولا چٹوک سے ہو کر گزرتا ہے‘۔ مولا چٹوک تک پہنچنے کے لیے مزید 35 سے 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔
صہیب بتاتے ہیں کہ ہمیں وہاں پہنچنے کے لیے نا ہموار سڑک پر 6 گھنٹوں کی ڈرائیو کرنی پڑی۔ آپ کو دریا، پہاڑ پار کرنے ہوتے ہیں اور چھوٹی پہاڑیوں پر چڑھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ کی گاڑی 45 ڈگری کے زوایئے پر چڑھائی کر رہی ہوتی ہے۔
اگرچہ وہ اس سوچ میں ہی گم تھا کہ وہاں صرف مولا چٹوک ایک انتہائی خوبصورت ہے لیکن وہاں ایک دوسرا سرپرائز بھی اس کا منتظر تھا۔ وہاں کا ایک مقامی شخص، جو اکثر گائیڈ کے طور پر مدد کرتا ہے، نے صہیب کو اس سے بھی زیادہ سحر انگیز مقام کے بارے میں بتایا۔ اس کے الفاظ تھے کہ ’آپ کو وہ جگہ لازمی دیکھنی چاہیے‘ ، وہ شخص چھوٹا چٹوک کے بارے میں بتا رہا تھا۔
صہیب نے بتایا کہ یہ جگہ مولا سے دو گھنٹوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں پہنچنے کا راستہ وہاں کے مقامی باشندوں کو بخوبی پتہ تھا۔ ہمیں یہ خبر نہ تھی کہ ہمیں چڑھائی بھی کرنی پڑے گی۔ ہمیں تو سلیپر جوتے پہنے ہوئے تھے مگر ان پر خلوص افراد نے ہمیں ان بڑی چٹانوں اور بڑے پتھروں کو کامیابی سے عبور کرنے میں کافی مدد کی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’وہاں پہنچ کر پہلی بار تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں ایسا کچھ خاص نہیں۔ پھر جب آپ 20 منٹ کی چڑھائی عبور کرنے کے بعد مڑ کر دیکھیں گے تو اچانک سے آپ کے سامنے پہلا تالاب، زبرست سبزہ اور ایک آبشار نظر آئیں گے۔ ہم ایسے کسی نظارے کی ہر گز توقع ہی نہیں کر رہے تھے. وہ مقام کسی پوشیدہ نخلستان جیسا تھا‘۔
وہاں صرف ایک آبشار یا تالاب ہی نہیں تھے بلکہ ایسے کئی چھوٹے بڑے تالاب اور آبشاریں تھیں۔ ان کے گرد موجود ایک چٹانی راستے پر گامزن ہو جائیں اور پھر آپ کے سامنے ایک سب سے بڑی آبشار موجود ہوتی ہے — جو آپ کے قد سے کافی زیادہ بلند و بالا ہے۔ صہیب بتاتے ہیں کہ ’وہاں کا پانی مولا چٹوک سے کافی زیادہ صاف شفاف ہے۔ اس جگہ کی خوبصورتی لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں‘۔
میں نے جب صہیب سے پوچھا کہ، آخر آپ ایسے مقامات ڈھونڈ کس طرح لیتے ہیں؟ تو جواب آیا کہ مقامی باشندوں سے گفتگو ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ ایسی جگہوں پر پہنچ سکتے ہیں۔
پیر چٹل کا مزار اور ان کی 'مقدس' مچھلیاں
اسی علاقے میں آس پاس ہی کہیں صہیب کو ایک اور تالاب دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہ تالاب ساتھ ہی موجود مزار کا خیال رکھنے والوں نے خود بنایا تھا۔
صہیب نے بتایا کہ وہ مزار صوفی بزرگ پیر چٹل— بلوچستان میں موجود صوفی بزرگوں میں سے بڑے بزرگ — کا ہے۔
صہیب نے کہا کہ تالاب واقعی بہت بڑا تھا۔ انہوں نے مچھلیوں کے تحفظ کے لیے انہیں تالاب تک ہی محدود کر دیا ہے۔ وہاں کے چند مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مچھلیاں بابا کی بھینسیں ہیں اور یہ کہ اگر کوئی انہیں کھانے کی کوشش کرے گا تو یہ ان میں سے زندہ برآمد ہوں گی۔ مچھلیوں کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، البتہ لوگ انہیں خود کھانا کھلانے وہاں ضرور جاتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان میگزین میں 19 فروری 2017 کو شائع ہوا۔
مدیحہ سید صحافی ہیں۔ ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری سازاور ریڈیو نامہ نگار ہونے کے ساتھ سیرو سیاحت کے موقعے تلاش کرتی رہتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں