پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں انعقاد درست وقت پر درست پیغام
لاہور میں حملہ ہوا، سیہون میں حملہ ہوا، بلاشبہ ان حملوں سے پورا پاکستان متاثر ہوا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے خدشات اور گھبراہٹ کی ایک نئی اور جائز لہر کو جنم دیا ہے؛ ریاست عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
دہشتگردی کے خلاف ریاست کی جانب سے بہتر انداز میں مربوط اور زیادہ مؤثر رد عمل درکار ہے — اور شاید یہ واضح اشارہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ریاست اور معاشرہ انتہاپسندی کے خطرے کے بھینٹ نہیں چڑھیں گے۔ 5 مارچ کو پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے لاہور میں انعقاد کا فیصلہ شاید متنازع ہو سکتا ہے مگر صحیح وقت پر درست پیغام ہے۔
ظاہر ہے کہ حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس ایونٹ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کا خیر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور میں فائنل کروانے کے فیصلے میں رازداری، اور اس کے انعقاد کے پیچھے موجود سیاسی وجوہات، بدترین فیصلہ سازی کی ایک مثال ہے۔ مگر ان ظاہری عوامل کی بناء پر آپ کی توجہ پی ایس ایل کا فائنل ملک میں کروانے کے پیچھے موجود ٹھوس اور درست وجوہات سے نہیں ہٹنی چاہیے۔
اول، اس ملک میں گزشتہ 8 برسوں سے بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوئی۔ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں ناقابل تردید فوائد حاصل ہوئے ہیں اور تقاریب اور میدانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ریاست کی صلاحیت بھی بہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کسی ناگہانی واقعے کے بغیر کراچی سے لے کر اسلام آباد تک بین الاقوامی رہنماؤں، بین الاقوامی کانفرنسوں اور مہمانوں کی میزبانی کر چکا ہے۔
بلاشبہ کرکٹ فائنل سے رسک میں اضافہ تو ضرور ہوگا؛ مگر ساتھ ہی ریاست محفوظ کھیل کے انعقاد کو ممکن بنانے پر اپنی مجموعی طاقت اور مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ مزید براں، پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد دیگر ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز کے لیے راہیں ہموار کر سکتا ہے۔
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی قوم حالت جنگ میں ہے۔ اسی طرح اس جنگ میں حاصل ہونے والے فوائد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ جب ہم ریاست کی تنظیمی صلاحیت پر دوبارہ اپنا اعتماد بحال کریں۔
دوسرا، اور اتنا ہی اہم نکتہ یہ کہ پاکستان میں کرکٹ کی عنقریب واپسی کو حکومت اپنی ذاتی فتح نہ سمجھے۔ فائنل کو جتنا ممکن ہو سکے اتنی غیر سیاسی اور اجتماعی حیثیت دینی چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پہلے ہی لاہور میں فائنل کروانے کی مخالفت میں بیان دے چکے ہیں جسے ان کے سیاسی اختلاف رائے سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ پی سی بی/پی ایس ایل کی انتظامیہ کے ساتھ عمران خان کے سیاسی اختلافات ہوں گے اور ایسے ہی پنجاب اور وفاق میں بیٹھی مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے بھی، مگر سیاست سے بڑھ کر اور بھلے ہی تھوڑے عرصے کے لیے بطور ایک قوم متحد ہونے کا کوئی موقع ہے تو وہ یہی موقع ہے۔
سیاسی رہنماؤں، ثقافتی سفارتکاروں، عام شہریوں اور معاشرے کے پرامن اور خوشحالی کے خواہشمند طبقات کو پی ایس ایل فائنل کو پاکستان میں موجود ترقی پسندی اور اجتماعیت کا ایک شاندار میلہ بنانا چاہیے۔ بیرون ملک کھلاڑیوں کی آمد پرامن پاکستان کی جدوجہد کا مزید ایک اور ثبوت ہوگا۔
مطمئن ہو کر لاپرواہی برتنے کی کوئی گنجائش نہیں، مگر کرکٹ کی وطن واپسی کا خیر مقدم لازمی کرنا ہوگا۔
یہ اداریہ یکم مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔