• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:45pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:45pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm

علاقائی زبانوں کے تحفظ کی طرف ایک درست قدم

شائع March 21, 2017

زبان شناخت ہوتی ہے، اور پاکستان جیسے کثیر القومیتی ملک میں یہ کلیہ تسلیم کرنے میں ناکامی کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔

سو بھلے ہی اس کام میں پانچ سال لگے ہوں، مگر خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے پروموشن آف ریجنل لینگوئیجیز اتھارٹی ایکٹ 2012 کا نفاذ تاخیر کے باوجود بہتر اقدام ہے۔

اپریل میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کی ابتداء سے سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں ان علاقوں کی مقامی زبانیں بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائیں گی۔ ان زبانوں میں پشتو، ہندکو، سرائیکی اور کھوار شامل ہیں، جبکہ کوہستانی، جو خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے پانچ علاقائی زبانوں کی فہرست میں شامل ہے، وہ نصاب کا حصہ نہیں ہوگی کیوں کہ اس کے بولنے والوں کے درمیان اس کے لہجے پر اختلاف ہے۔

ہمارے ملک کی تاریخ اس بات کی واضح عکاس ہے کہ کس طرح زبان آپ کی سیاسی قوت کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرتی ہے۔

تقسیمِ ہند کے فوراً بعد اس وقت مرکزی حکومت کی جانب سے مشرقی پاکستان میں بھی اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے نے بنگالی قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی۔

ستر کی دہائی کے اوائل میں سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان فسادات ہوئے۔ آج بلوچستان میں سرکاری اسکولوں میں نہ بلوچی پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی براہوی، یہاں تک کہ اختیاری مضمون کے طور پر بھی نہیں۔

لہٰذا یہ بات قابلِ غور ہے کہ تربت یونیورسٹی، جو دراندازی سے سب سے زیادہ متاثر علاقے میں واقع ہے، وہاں طلباء کسی بھی مضمون سے زیادہ بلوچی زبان بحیثیتِ مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔

اگر ہم واضح سیاسی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی دیکھیں، تب بھی مقامی زبانوں، خاص طور پر چھوٹی اور پسماندہ برادریوں کی زبانوں کو، ان کا جائز حق دے کر ہم ثقافتی رنگارنگی کو محفوظ بناتے ہیں۔

زبان لوگوں کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتی ہے، ایک ایسی وراثت جو ایک لسانی گروہ کو دوسرے سے مختلف بناتی ہے۔

وفاقی اور صوبائی سطحوں پر حکام اس معاملے میں اپنے فرائض سے غافل رہے ہیں۔ 2014 میں اسی مضمون پر ایک پارلیمانی دستاویز میں اس ملک میں بولی جانے والی 72 زبانیں گنوائی گئی تھیں، جن میں سے دس یا تو "مشکلات کا شکار ہیں"، یا "خاتمے کے قریب ہیں"۔

اس دوران اس سال کے اوائل میں پشاور میں ایک کانفرنس کے دوران یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ دیگر درجنوں زبانوں کے بولنے والے بھی تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان زبانوں میں ہندکو بھی شامل ہے جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ حکومت کا حالیہ اقدام بروقت معلوم ہوتا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے تمام علاقائی زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانوں کا درجہ دینا نہ صرف ایک مناسب اقدام ہوگا، بلکہ دور اندیش بھی۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 21 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 1 مئی 2025
کارٹون : 30 اپریل 2025