پاکستان کے ہندوستان کو ہرانے کا کتنا امکان موجود ہے؟
اتوار کو کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے میچز میں سے ایک کے لیے لندن نیلے اور ہرے رنگوں میں رنگ جائے گا۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان 50 اوورز کی آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی فائنل میں آپس میں ٹکرائیں گے۔
جنوبی ایشیاء کی دو سب سے بڑی ٹیموں کے لیے ورلڈ کپ کے بعد یہ سب سے بڑا مقابلہ ہے۔ پوری دنیائے کرکٹ سانسیں روکے اس میچ کا انتظار کر رہی ہے۔
صرف کچھ ہفتے قبل اگر کوئی اشارتاً بھی یہ کہتا کہ پاکستان آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچ جائے گا تو لوگ اس پر ہنس دیتے۔ کیوں کہ آخرکار سرفراز کی سربراہی میں یہ ٹیم ٹورنامنٹ میں بالکل غیر متوقع طور پر داخل ہوئی تھی۔ آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں موجود ٹاپ آٹھ ٹیمیں یہ ٹورنامنٹ کھیلتی ہیں، اور پاکستان آٹھویں نمبر پر تھا۔
مگر گرین شرٹس نے فائنل میں سب سے پہلے جگہ بنا کر سب کو حیران کر دیا۔
صرف دو اتوار قبل ہندوستان نے پاکستان کو 124 رنز سے شکست دی تھی۔ اس اتوار بھی ویرات کوہلی کے لڑکوں کو اپنے مخالفین پر ان کے کمزور مڈل بیٹنگ آرڈر کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔
پاکستان کا مڈل آرڈر (نمبر تین سے نمبر سات تک) پورے ٹورنامنٹ میں صرف 300 رنز بنا پایا ہے، یعنی فی وکٹ 30 رنز۔ دوسری جانب ہندوستانی مڈل آرڈر نے 90.6 رنز فی وکٹ کی شرح سے تقریباً 500 رنز بنائے ہیں۔
اوپنرز اور ٹیل اینڈرز کے درمیان پانچ بلے بازوں میں سے پاکستان کے پاس چار دائیں ہاتھ کے بیٹسمین ہیں، جبکہ صرف ایک، عماد وسیم ہیں جو بائیں ہاتھ سے کھیلتے ہیں، اور وہ نمبر سات پر آئیں گے۔ ہندوستان اسی کمزوری کو نشانہ بنائے گا۔
بائیں ہاتھ کے باؤلر رویندرا جدیجا ون ڈے میچز میں دائیں بازو کے بیٹسمینوں کے خلاف 29 کی اوسط رکھتے ہیں جبکہ بائیں ہاتھ والوں کے خلاف 60 کی۔ مگر پاکستان کے خلاف میچ، جس میں انہوں نے اظہر علی اور محمد حفیظ کو پویلین واپس بھیجا، کے بعد جدیجا نے اگلے تین میچز میں 140 رنز دے کر صرف دو وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان بھرپور اور مستحکم شروعات کے لیے اپنے اوپنرز پر بہت زیادہ منحصر ہوگا۔ ٹاپ آرڈر میں 27 سالہ فخر زمان کی شمولیت کے بعد پاکستان کو اوپننگ شراکت داری میں زیادہ رنز بنانے کا موقع ملا ہے۔
جنوبی افریقا کے خلاف پاکستان کی پہلی وکٹ نے 40 رنز بنائے۔ سری لنکا کے خلاف اگلے میچ میں اظہر اور زمان نے مل کر 74 رنز بنائے۔ میزبان انگلینڈ کے خلاف انہوں نے مئی 2015 کے بعد پہلی بار پاکستان کی اوپننگ وکٹ پارٹرنرشپ کو 100 رنز سے اوپر پہنچایا۔
بھوانیشور کمار اور جسپریت بھمراہ، دونوں ہی بہترین لینتھ کی باؤلنگ کروا رہے ہیں۔ جنوبی افریقا کے خلاف جو میچ ہندوستان کو لازماً جیتنا تھا، اس میں انہوں نے پہلے پاور پلے کے دوران ہی ہاشم آملہ اور کوئنٹن ڈی کوک کو پویلین کی راہ دکھاتے ہوئے ون ڈے کی سب سے زبردست ٹیم کی بیٹنگ لائن تہس نہس کر دی۔
ہندوستان پاکستان کی اوپننگ جوڑی کو بھی ایسے ہی ہدف بنائے گا، خاص طور پر زمان کو، جو سیمی فائنل میں انگلینڈ کے مارک ووڈ کے خلاف کافی بے چین نظر آئے۔
ہندوستان سے ہارنے کے بعد پاکستان اپنے روایتی طریقے، یعنی حریفوں کے خلاف فاسٹ باؤلرز لانے پر مجبور ہوا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں اسپنرز نے ایجبیسٹن کی ریگ مال جیسی وکٹ پر گیند کو (قانونی طور پر) ریورس سوئنگ کے لیے تیار کیا۔ حسن علی نے اپنے تباہ کن ریورس سوئنگ کے ساتھ درمیانی اوورز میں کام دکھا دیا۔
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
23 سالہ حسن علی اس وقت ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہیں جنہوں نے چار میچز میں 10 وکٹیں لی ہیں۔ اس کے بعد بائیں ہاتھ کے فاسٹ باؤلر جنید خان ہیں، جو سات وکٹوں کے ساتھ نمبر چار پر ہیں۔
محمد عامر تین میچز میں صرف دو وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کمر کی تکلیف کی وجہ سے وہ آخری میچ کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوئے، مگر ٹورنامنٹ میں ان کی بہترین باؤلنگ کی وجہ سے وہ پھر بھی فائنل میں کھیلنے کے لیے پہلا انتخاب ہوں گے۔ فائنل سے قبل ان کا فٹنس ٹیسٹ لیا جائے گا، اور اگر انہیں فٹ قرار دے دیا گیا، تو ان کے سامنے ایک بہت مشکل ٹاسک موجود ہوگا۔
ہندوستانی اوپنرز شیکھر دھاون اور روہت شرما چار میچوں میں بالترتیب 317 اور 304 رنز بنا کر ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ فائنل کی جانب اپنے سفر میں اس جوڑی نے دو دفعہ 100 رنز سے زیادہ کی شراکت قائم کی، جس میں سے پہلی پاکستان کے خلاف تھی۔
ہندوستانی کپتان کوہلی، جو نمبر تین پر کھیلتے ہیں، نے ٹورنامنٹ میں تین دفعہ نصف سنچری سے زیادہ رنز بنائے ہیں، جبکہ ان کا سب سے بہترین اسکور آخری میچ میں تھا جس میں وہ 96 پر ناٹ آؤٹ رہے۔
واپس اٹھ کھڑے ہونے والے پاکستان کے ساتھ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ میچ کا نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ کبھی بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آخری دن کیسا پاکستان میچ میں نظر آئے گا۔ کیا یہ وہ پاکستان ہوگا جس نے ٹھیک دو ہفتے قبل ہندوستان کے ہاتھوں بدترین شکست اٹھائی تھی، یا وہ پاکستان جس نے اس شکست کے صرف دو دن بعد دنیا کی بہترین ون ڈے ٹیم کو دھول چٹا دی تھی۔
مگر وہ اتوار، جب پاکستان کو ہندوستان کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، اس کے برعکس اس دفعہ پاکستان میں خود اعتمادی ضرور موجود ہوگی۔ اب وہ پاکستان کھیلے گا جو خود کو اٹھا چکا ہے۔ وہ ٹیم، جس میں سینیئرز کے ناکام ہونے پر جونیئرز نے آگے بڑھ کر سہارا دیا۔
مایوس کن کارکردگی دکھانے والی پاکستانی ٹیم اس اتوار کو چیمپیئن شپ پر نگاہیں گاڑے میدان میں اترے گی۔
بلاشبہ یہ وہ مقابلہ ہے جو اتنا ہی سنسنی خیز ہوگا جتنی اس سے امیدیں ہیں۔