آپ غلط ہیں، سراسر غلط!
موجودہ دور میں اگر کسی قوم کے طرزِ فکر کا مطالعہ کرنا ہے تو سوشل میڈیا پر جاری اُس قوم کے رجحان کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ اُس قوم کے فکری نظریات کیا ہیں، اُن کی ترجیحات کیا ہیں، اُن کے نزدیک کون سے معمولی مسائل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، اور کون سے سنگین مسائل اُن کے نزدیک بال برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے۔
ہم نے بھی پچھلے دنوں ایک قوم ہونے کے ناطے اپنے فکری رجحان کا مظاہرہ ماہرہ خان کی 'ناقابلِ اعتراض' تصاویر پر لاتعداد تبصروں کی صورت میں کیا۔ ساتھی اداکار کے ساتھ نیویارک کی کسی سائیڈ واک پر بیٹھی سگریٹ کے کش لیتی ماہرہ خان کا یہ روپ کسی نامعلوم خیر خواہ سے برداشت نہ ہوا۔
اُس نے جھٹ سے اپنا اسمارٹ فون نکالا اور کھٹ سے تین چار تصویریں بنا ڈالیں۔ ماہرہ کے ہاتھوں میں دبی سگریٹ بھی اتنی دیر میں ختم نہ ہوئی ہوگی جتنی دیر میں یہ تصویریں سوشل میڈیا پر عام کردی گئیں، اور کئی دنوں کی جمود سے اکتائی پاکستانی عوام کو بالآخر تبصرے کرنے کے لیے ایک موضوع مل ہی گیا۔
تو جناب ماہرہ کے ہاتھ میں دبی سگریٹ سے لے کر، اُس کا لباس، اُس کے ساتھ موجود ہندوستانی اداکار، حتیٰ کہ اُس کی پیٹھ کی ابھری ہوئی ہڈیوں تک پر سیر حاصل لعنت ملامت کی گئی۔ ایک حضرت نے تو جوش میں آکر اداکارہ کو پولیو کی مریضہ تک کہہ ڈالا، یہ سوچے بغیر کہ پولیو کمر کا مرض نہیں ہے۔
زمانہ بدل گیا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں والا محاورہ اب جتنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اتنے سماج کے ٹھیکیدار میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بس نہیں بدلا تو سوچ کا وہ انداز جس کا محور آج بھی عورت کے ٹخنوں سے لے کر اُس کے بدن کا ہر کھلا حصّہ ہے، چاہے وہ نقاب کے پیچھے سے نظر آنے والے محض دو دیدے ہی کیوں نہ ہوں، تو بھلا فٹ پاتھ پر بیٹھی ماہرہ کس کھیت کی مولی ہے؟
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ رات کی تاریکی میں انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنے والوں، بسوں میں بیٹھی خواتین کو سیٹ کے پیچھے سے تنگ کرنے والوں اور سڑکوں پر موجود بھکارنوں سے بیہودہ گفتگو کرنے والوں کو اِس بات کی فکر ہے کہ ماہرہ نے ملک و قوم کا نام ڈبو ڈالا یا اُس کے اِس بے باکانہ فعل سے ہماری معاشرتی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو آپ غلط ہیں، سراسر غلط۔
کیونکہ اگر واقعی ملک کے نام و ناموس کی فکر اِن دوغلے لوگوں کو ہوتی تو برطانیہ میں ہونے والے روش ڈیل اسکینڈل میں بچوں کے ساتھ جنسی عمل اور بلیک میلنگ میں ملوث پاکستانی مردوں کے خلاف بھی اِسی طرح شور و غوغا مچایا جاتا، تصویریں چلائی جاتیں، لعنت ملامت کی جاتی، اسلام سے خارج کیا جاتا۔
اوہو لیکن اب اتنی پرانی بات اکھاڑ کر بھلا کیا فائدہ؟ ویسے بھی وہ کوئی فلمی ایکٹریس کی برہنہ پیٹھ تو تھی نہیں کہ جسے یاد رکھا جاتا، مرد ہیں اور مردوں سے تو ایسی 'غلطیاں' ہو ہی جاتی ہیں۔
تھوڑا اور ماضی قریب میں آتے ہیں گمبٹ کی آرتی کماری کی طرف جسے علاقے کے جاگیردار امیر وسان نے اغوا کر لیا اور جبری طور مذہب تبدیل کروا کے شادی کرلی۔ سندھ کی ہندو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اِس حوالے سے پہلے بھی کئی دفعہ آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایک بار پھر یہاں کوئی سگریٹ کا کش نہ تھا، محض مذہب کے سچے خادمین تھے، سو سوشل میڈیا کی غیرت بریگیڈ اپنی برہنہ پیٹھ دکھا کر بات آئی گئی کر گئی۔
قوم کا مسئلہ نہ سگریٹ کے کش لگاتی ایکٹریس ہے، نہ اُس کا انڈین ساتھی، نا ہی برہنہ پیٹھ اور ٹانگیں، بلکہ اِن دوغلے اور پدرسری لوگوں کا مسئلہ وہ بیمار طرزِ فکر ہے جس نے ہمیں اِس مغالطے کا شکار کردیا ہے کہ معاشرے کی ہر عورت کو اپنی جاگیر سمجھا جائے اور یہ بات ہمیں ہرگز ہضم نہیں کہ ایک عورت اپنی مرضی سے کسی مرد ساتھی کی سنگت میں، معاشرے کی ناقدانہ نظروں سے دور بے فکری کے کچھ لمحات گزار سکے۔
ہمارے 'مشرقی' طرزِ فکر کے مطابق عورت کا اصل مقام تو چار دیواری ہے۔ اِس چار دیواری کے پیچھے اُس کا جسم بھلے ہی ننگا اور زخموں سے چور ہو، بس مشرقیت کا بھرم قائم رہے۔ اِس عورت کو چاہے جتنا ہی تشدد یا ہوس کا نشانہ بنایا جاتا رہے، اِسے زندہ جلا دیا جائے، گلہ گھونٹ کر مار دیا جاۓ یا تیزاب سے اِس کی ہڈیاں گلا دی جائیں یا اِسے کاٹ کر دریا میں بہا دیا جاۓ، مگر معاشرہ اپنی برہنہ پیٹھ دوسری طرف گھمائے گرما گرم تبصروں کے لیے ہمہ وقت کسی قندیل یا کسی ماہرہ کی تلاش میں رہتا ہے۔
مجھے کوئی تو بتائے کہ بھلا یہ اخلاقی پولیسنگ صرف ماہرہ خان پر ہی کیوں؟ وہ جو ہزاروں لاکھوں لڑکے پان کے کھوکھوں کے آس پاس پائے جاتے ہیں، آج تک اُن کی کتنی تصاویر اِس طرح انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی ہیں؟
یا چلیں اگر یہ مانا جائے کہ وہ مشہور نہیں تھے اور ماہرہ خان مشہور ہیں اِس لیے تقابل نہیں بنتا، تو پھر بھی، کیا آپ نے کبھی کسی مرد اداکار کے سگریٹ پینے پر اِس طرح کے تبصرے دیکھے ہیں جس طرح اِس پورے ہفتے میں ہم نے ماہرہ پر کیے؟
عورتوں کے حوالے سے یہ مخصوص رویہ مشرقیت کے دعوے دار پدرسری معاشرے کے طرز فکر میں گہرائی تک نقش ہے اور محض ایک جملہ، ایک تصویر ایک کش کی دیر ہے اور یہ رویہ ابل ابل کر باہر آنے لگتا ہے۔ جب یہی عورت کسی جرگے کے فیصلے کے تحت گینگ ریپ کا شکار ہو رہی ہوتی ہے تب اِس معاشرے کی برہنہ پیٹھ پر غیرت کا کیڑا ذرا بھی نہیں رینگتا۔
اِسی معاشرے کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ 'ہمارا معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانی کے تو اجازت دیتا ہے، مگر تانگہ چلانے کی نہیں۔' منٹو کی وفات کے 62 سال بعد بھی الاّ ماشاء اللہ حالات وہی ہیں۔
تبصرے (19) بند ہیں