پولیس نے فوج کو مالاکنڈ سے نفری میں کمی کی پیش کش کردی
پشاور: خیبرپختونخوا کے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) پولیس چیف صلاح الدین خان محسود کا کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ پولیس نے پاک فوج کو مالاکنڈ ڈویژن سے اپنی نفری کم کرنے کی پیش کش کی ہے تاکہ علاقے میں جاری کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے صلاح الدین محسود نے کہا ہے محکمہ پولیس مالاکنڈ ڈویژن کی سیکیورٹی اچھے طریقے سے سنبھال سکتا ہے لہذا پاکستان آرمی کو پیش کش کرتے ہیں کہ وہ علاقے سے اپنی نفری کم کردے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح پاک فوج کے جوان نواحی علاقوں کی حفاظت کی صلاحیت رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح محکمہ پولیس بھی شہری علاقوں میں قانون اور امن و امان کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ ہم مزید بہتری کے لیے اپنے کردار کو آہستہ آہستہ بڑھا رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ نے کہا کہ میں یہ بات بھروسے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر محکمہ پولیس کے افسران کو فاٹا میں تعینات کیا گیا تو وہ وہاں پر بھی پاک فوج کے جوانوں کے شانہ بشانہ کام کریں گے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخواہ: پانچ سال میں نو ہزار سے زائد دہشتگردی کا شکار
انہوں نے کہا کہ عوامی شکایتی سیل، پبلک سیفٹی اور ریجنل پولیس نے عوامی تحفظ کے لیے ایک ایکٹ 2017 کے نام سے ترتیب دیا ہے، جسے منظوری کے لیے پشاور ہائی کورٹ بھیج دیا، عدالتی منظوری کے بعد اس ایکٹ پر عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایکٹ نافذ العمل ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے گی تاکہ شہریوں کو بھی علم ہوسکے پولیس اُن کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے اور وہ اس طرح ہماری کارکردگی کو دیکھ سکیں گے۔
صلاح الدین محسود نے کہا کہ میں ذاتی طور پر خود عوام کے پاس جاکر اُن سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں رائے لیتا ہوں، عوامی رائے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ پولیس کی اضافی نفری سے عاجز ہیں مگر عوام کو یہ بات سوچنی ہوگی کہ یہ اقدام اُن کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا۔
پولیس چیف نے کہا کہ نئی قانون سازی کے بعد عوامی شکایات پر متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور تفتیش میں اگر ثابت ہوگیا تو اہلکاروں کے خلاف سروس ایکٹ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار نئے ایکٹ پر کام شروع ہوگیا تو محکمے میں اسے بھرپور طریقے سے عمل درآمد کروایا جائے گا تاکہ ہم اپنی خامیوں پر قابو پاتے ہوئے عوام کو بہترین خدمات فراہم کریں۔
یہ بھی پڑھیں: مالاکنڈ سے فوج واپس بلانے کا فیصلہ
صوبائی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں اندرونی احتساب کا عمل شروع کردیا گیاہے اور اس کے تحت اب تک 7 ہزار 8 سو 11 اہلکاروں کو سزا دی گئی، جن میں 13 افسران اور 987 اہلکار شامل ہیں، جرائم میں ملوث اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ہے اور ہم نے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جن ڈی ایس پیز کے خلاف اہلکاروں کی شکایات موصول ہوئی اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اسی طرح جونیئر اہلکاروں کی بڑی تعداد کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس نے انسداد دہشت گردی عدالت سے جاری ہونے والے فیصلے کے خلاف ٹربیونل کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صلاحی الدین محسود نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف محکمہ پولیس کی جانب سے کارروائیاں جاری ہیں، اس ضمن میں یہ تاثر دینا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو یہ غلط ہے کیونکہ ہم نے 1200 سے زائد دہشت گردوں کو گرفتار کیا جن میں سے 90 فیصد لوگ اب جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
آئی جی کے پی کے نے کہا کہ آزاد ذرائع نے صوبے میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے رپورٹ جاری کی جس میں ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد بہتری آئی یہ ایک تاریخی رپورٹ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صلاح الدین محسود آئی جی پی خیبر پختونخوا مقرر
انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس نے ورک شاپ کا انعقاد کیا جس کا مقصد انویسٹی گیشن کو مزید بہتر کرنا ہے ساتھ ہی ہم نے عوام کے میڈیا کے توسط سے آگاہی مہم بھی شروع کی جس کے بعد لوگ ایف آئی آر اندراج کے لیے آنے لگے۔
انسپیکٹر جنرل نے کہا کہ صوبے میں داعش یا کسی دہشت گرد گروپ کی کوئی موجودگی نہیں تاہم اگر شرپسند عناصر سے سامنا ہوا تو پولیس کے پاس صلاحیتں موجود ہیں کہ وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
افغانستان میں امن و امان قائم ہونے کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر آئی جی کے پی کے نے کہا کہ پڑوسی ملک کے حالات کا صوبے پر بہت اثر پڑتا ہے اس لیے ہم ہروقت چوکنے رہتے ہیں۔
یہ رپورٹ 8 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی