فیض محل: تالپور دور کی ایک یادگار عمارت
سندھ میں فنِ تعمیر کی شاہکار عمارات ہمیں ہر اس شہر میں نظر آجاتی ہیں جو اپنے انتظامی، رہائشی یا تجارتی اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں کراچی، حیدرآباد، شکارپور اور خیرپور سندھ کے ایسے شہر رہے ہیں جہاں آج بھی تاریخ کی شاہد عمارات اور دیگر آثار نظر آجاتے ہیں۔ اگرچہ بے دھیانی اور عدم دلچسپی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے مگر کچھ عمارتیں مدتوں سے وقت کے ستم کے آگے ڈٹی ہوئی ہیں۔
1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ فتح کیا تو سندھ کے آخری حکمران تالپور گھرانے کے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طور سندھ انگریزوں کے زیرِ اثر آگیا۔ تالپوروں نے یہ اقتدار کلہوڑا حکمرانوں سے حاصل کیا تھا، کلہوڑا دور میں تالپور ان کے سپاہی تھے مگر آہستہ آہستہ یہ تالپوروں کی سپاہ سندھ کی حکمران بن بیٹھی اور اس طرح سندھ میں نئی قلعہ بندی اور نئی سیاسی سازشوں کا آغاز بھی ہوگیا۔
مگر کلہوڑا خاندان سے اقتدار چھن جانے کا قصہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ مرزا قلیچ بیگ اپنی کتاب ’ریاست خیرپور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سندھ کی تاریخ میں تالپور حکمرانوں کا نام پہلی بار میان یار محمد کلہوڑا کے دور میں سنا گیا، جب دہلی کے شہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر سیوی کا حکمران بنایا گیا۔ کلہوڑا حکمران مرید رکھا کرتے تھے، تالپور بلوچ بھی ان کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔ ان دنوں میں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فساد برپا ہوا، شہزادہ بکھر سے ملتان ہوتا ہوا اس طرف گیا، میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کر فساد کو روکنے کے لیے وہاں روانہ کیا، جہاں وہ فساد روکنے میں کامیاب ہوئے۔ اس عمل سے شہزادہ بہت خوش ہوا اور انہیں پٹ باران والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔
میر شہداد خان ہی وہ شخصیت ہیں جو تالپوروں کے بڑے تصور کیے جاتے ہیں مگر میاں یار محمد کلہوڑا کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔ بعدازاں جب وہ ظلم کرنے لگے تو سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سے میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکے میاں کو گدی سے بے دخل کردیا اور ان کے بھائی عطر خان کو بٹھایا مگر وہ بھی اچھے حکمران ثابت نہ ہوئے، اس طرح ان کے بھائی میاں غلام شاہ کو گدی دی گئی، جس کی وجہ سے کچھ عرصے تک دونوں بھائیوں میں جنگ چھڑی رہی۔ میر بہرام میاں غلام شاہ کا سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو میں شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کو دہلی کے بادشاہ کی طرف سے شاہ وردی خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب ہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑا حکمرانوں کی تخت گاہ تھی۔ مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبدار سے ان بن ہوگئی۔ میاں میر بہرام اور ان کے بیٹے میر صوبدار خان کو قتل کرادیا گیا اور میر بجار خان حج کرنے چلے گئے جبکہ میروں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔
جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ میر صوبدار خان کے 4 بیٹے تھے، جوکہ اس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جوکہ ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے اور حیدرآباد کا قلعہ فتح کرلیا۔ اس طرح اقتدار کی باگ ڈور کلہوڑا خاندان کے ہاتھوں سے جانے کی شروعات ہوئی۔
1786ء میں میر سہراب خان نے خیرپور کو اپنی تخت گاہ بنایا، جہاں فوج، جھنڈا اور ڈاک کے ٹکٹ بھی تھے۔ میر سہراب خان کے بعد میر رستم تالپور، میر علی مراد تالپور، میر فیض محمد تالپور اور میر امام بخش تالپور خیرپور ریاست کے حکمران رہے۔ میر سہراب خان نے اس ریاست کی حدود شمال میں کشمور اور کوٹ سبزل تک جبکہ مغرب میں گنداواہ تک اور جنوب میں نوشہرو فیروز تک اور مشرق میں جیسلمیر تک پھیلا دی تھیں۔
1843ء میں میانی کی جنگ میں شکست کے بعد خیرپور ریاست کا حکمران میر علی مراد کو رہنے دیا گیا مگر کچھ عرصے بعد انگریزوں نے ریاست کا کافی حصہ چھین کر صرف موجودہ جغرافیائی حدود تک ہی انہیں اس ریاست کا والی قرار دیا۔ جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو خیرپور ریاست کی بھی وہ حیثیت ختم کردی گئی اور اسے پاکستان میں شامل ہونا پڑا۔
کسی بھی فاتح کے لیے کسی حکمران سے اقتدار چھیننا تو آسان ہے مگر اسے سنبھالنا اور قائم و دائم رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے، اور تالپور خاندان کے ساتھ بھی کچھہ ایسا ہی ہوا۔ جہاں تالپور حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بہت کچھ کیا وہاں انہوں نے نئے قلعے اور عمارتیں بھی تعمیر کروائیں، اس دور میں ہی جنگیں بھی لڑی گئیں، جن میں دوبے والی جنگ اور میانی والی جنگ قابلِ ذکر ہیں۔ مگر ان کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ ان دونوں جنگوں میں تالپور حکمران فتح یاب نہیں ہوئے بلکہ شکست ہی ان کا مقدر بنی۔
تالپور درحقیقت کلہوڑا فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ان کی سپاہ بن گئے اور اس سپاہ کا سپہ سالار شہداد تالپور بنا۔ جب کلہوڑوں نے تالپوروں کے سرداروں کو قتل کروانا شروع کیا تو 1743ء میں تالپوروں نے اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور اس طرح ہالانی کی جنگ میں کہلوڑا خاندان کو شکست ہوئی۔ لہٰذا 1783ء سے لیکر 1843ء تک تالپور گھرانے کے کل 6 حکمرانوں نے سندھ پر حکومت کی جبکہ انہوں نے سندھ میں 3 ریاستیں بھی قائم کیں، جن میں حیدرآباد، میرپورخاص اور خیرپور شامل تھیں۔
مگر مسئلہ پھر بھی ان تمام ریاستوں کو انتظامی طور پر بہتر انداز سے سنبھالنا تھا۔ چونکہ انہیں اس سے قبل کسی بھی قسم کا ریاستی و انتظامی معاملات چلانے کا تجربہ نہیں تھا، لہٰذا یہ انتظامی بحران وقت گزرنے کے ساتھ تیز تر ہوگیا۔ تالپور حکمران خاندان کا اقتدار چھن جانے میں نہ صرف اندرونی سازشیں تھیں بلکہ انگریزوں نے بھی ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ان کا ثبوت ہمیں ان معاہدوں سے ملتا ہے جوکہ اس زمانے میں تالپور حکمران خاندان اور انگریز انتظامیہ کے درمیان ہوئے تھے۔
خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی جہاں سے انتظامی معاملات چلائے جاتے تھے۔ آج بھی اگر خیرپور کو دیکھا جائے تو وہاں کئی قدیم عمارتیں نظر آجائیں گی اور اس شہر کی سب سے خوبصورت عمارت ’فیض محل‘ ہے۔
یہ محل 2 منزلہ عمارت ہے۔ یہ عمارت فیض محمد تالپور نامی تالپور حکمران نے تعمیر کروائی تھی، جو 1894ء سے 1909ء تک خیرپور ریاست کے حکمران رہے تھے۔ اس محل کا ایک اور نام ’لکھی محل‘ بھی ہے۔ فیض محل کی تعمیر میں لال اینٹوں کے ساتھ جودھ پور کے پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
موجودہ فیض محل کی دیکھ بھال میر مہدی رضا کے ذمے ہے۔ یہ محل تالپور حکمرانی کے زمانے میں انتظامی معاملات چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی یہ عمارت آنکھوں کو موہ لیتی ہے۔ مغل طرزِ تعمیر کی یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔
آپ جیسے ہی فیض محل کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں تو ایک بڑا لان اور پھول پودے آپ کا استقبال کرتے ہیں جبکہ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ محل کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا ہال نظر آتا ہے جس میں اس وقت کے تمام حکمرانوں کی تصاویر، اس زمانے میں استعمال ہونے والی اشیاء، شو پیس، فانوس اور معاہدوں کی نقول دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی ہال کے برابر میں ہی ایک ڈائننگ ہال بھی ہے جو آج بھی کافی بہتر حالت میں موجود ہے۔
مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں اس محل کے دورے کیے تھے، ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل ایوب خان بھی شامل ہیں۔
آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔
فیض محل سے ایک رومانوی داستان بھی جڑی ہے جس کے بغیر فیض محل کا ذکر ادھورا سا لگتا ہے۔ وہ داستان اسی خاندان کے چشم و چراغ میر علی نواز ناز اور بالی کی ہے، بالی لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک گلوکارہ تھیں۔ میر علی نواز ناز نے بالی کے عشق میں گرفتار ہوکر ان سے شادی کی مگر وہ شادی طویل عرصے چل نہ سکی۔ آج بھی بالی کے لیے تعمیر کیا گیا دلشاد محل خیرپور میں دیکھا جاسکتا ہے جو میر علی نواز ناز کی جانب سے تعمیر کروایا گیا تھا۔
آج اس دلکش عمارت میں تالپور خاندان کے نوابوں کی پہلے جیسی زندگی تو نہیں رہی ہے مگر فیض محل ہمیں آج بھی اس دور کی یاد دلاتا ہے جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی۔
حوالہ: خیرپور ریاست (مرزا قلیچ بیگ)
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں