• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
شائع May 4, 2018 اپ ڈیٹ April 4, 2019

ماحول دوست مینگرووزسے ہماری دشمنی کیوں؟

بلال کریم مغل

قدرتی نظام میں کچھ عوامل ایسے ہیں جن پر انسان اثرانداز نہیں ہوسکتا، مثلاً زلزلے، یہ ضرور آئیں گے اور آپ انہیں روک نہیں سکتے۔ مگر موسم، آب و ہوا اور پانی کا نظام ایسے عوامل ہیں جن پر انسانی سرگرمیاں نہایت منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، جس کا نتیجہ سال در سال بڑھتی ہوئی گرمی، سردیوں کے مختصر ہوتے ہوئے دورانیے اور موسموں کی عمومی شدت میں اضافے کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی موجود ہے جس کا اپنا ایک ماحولیاتی تنوع ہے۔ یہاں پر مخصوص انواع و اقسام کے پیڑ پودے صدیوں سے موجود ہیں، جن میں سب سے اہم پودے مینگرووز کے ہیں، جن کی سندھ کے ساحلی علاقوں میں سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل تمر (Avicennia marina) ہے۔

کیا یہ پودے محض بے مقصد طور پر اگی ہوئی جھاڑیاں ہیں؟ نہیں۔ کسی بھی ساحلی علاقے میں مینگرووز کی موجودگی نہ صرف وہاں کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ سمندر کی اونچی لہروں سے بھی ساحلوں کو تحفظ دیتی ہے۔ یہ بات 2004ء میں سب سے زیادہ واضح تب ہوئی جب انڈونیشیا اور بحرِ ہند کے دیگر ساحلی ممالک میں سونامی نے 2 لاکھ سے زیادہ جانیں لیں جبکہ کروڑوں لوگ دربدر ہوئے۔

قدرتی آفات نقصان تو پہنچاتی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ایک یاد دہانی، ایک وارننگ بھی ہوتی ہیں کہ ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے اب وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ ہماری ساحلی پٹی پر بھی مینگروو کے گھنے جنگلات موجود ہیں جنہیں ترقیاتی کاموں، زمینوں پر قبضے اور لکڑی حاصل کرنے کے لیے کاٹا جاتا رہا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی جانب سے دہائیوں پر مبنی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی کہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں مینگرووز کے جنگلات نے بتدریج اپنا رقبہ گنوایا ہے، مگر اب ان جنگلات کو معدوم ہونے سے پہلے بچا لینے کی کوششیں آہستہ آہستہ رنگ لانے لگی ہیں۔

سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری
سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری

سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری
سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری

سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری
سینڈزپٹ کے ساحل کی دوسری جانب موجود پانی اور مینگرووز کے جنگلات — فوٹو بشکریہ لکھاری

مقامی افراد اپنے گھریلو استعمال کے لیے جبکہ بلڈرز زمین حاصل کرنے کے لیے مینگرووز کے درخت کاٹتے ہیں — فوٹو بشکریہ ماہرہ عمر/ہیرالڈ
مقامی افراد اپنے گھریلو استعمال کے لیے جبکہ بلڈرز زمین حاصل کرنے کے لیے مینگرووز کے درخت کاٹتے ہیں — فوٹو بشکریہ ماہرہ عمر/ہیرالڈ

اسی حوالے سے چند دن قبل ایک جرمن تنظیم ہائینریک بوئیل اسٹفٹونگ (جرمن گرین فاؤنڈیشن) اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے اشتراک سے صحافیوں کے لیے کراچی کے مینگرووز کے جنگلات سے متعلق ایک آگاہی سیشن اور مینگرووز کے جنگلات کے دورے کا انعقاد کیا گیا تھا۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے کراچی میں سینڈزپٹ کے ساحل کے پاس ہی اپنا ویٹ لینڈز سینٹر (Wetland Centre) قائم کر رکھا ہے۔ ویٹ لینڈ کسی بھی ایسی زمین کو کہا جاتا ہے جہاں سال کے کچھ موسموں میں یا پھر پورا سال پانی کی موجودگی رہتی ہے۔ یہ پانی کی موجودگی والے دیگر علاقوں سے اس طرح مختلف ہوتی ہے کہ یہاں پر آبی نباتات کی بہتات ہوتی ہے جن میں مینگرووز بھی شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ تمر کے جنگلات سے کیا فائدے ہوتے ہیں؟

سینڈزپٹ پر موجود ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا ویٹ لینڈ سینٹر — فوٹو بشکریہ لکھاری
سینڈزپٹ پر موجود ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا ویٹ لینڈ سینٹر — فوٹو بشکریہ لکھاری

فضائی آلودگی کم کرنے میں دوسرے درختوں سے بہتر

سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ایک درخت کی حیثیت سے یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جو کہ ہمارا اور زمین پر موجود دیگر انواع کا سانس لینا ممکن بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مینگرووز کے پودے دیگر پودوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی 18 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نہایت ماحول دوست ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی جیسے شہر کے لیے جہاں پہلے ہی فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے۔

پڑھیے: تمر کے جنگلات اور کراچی کے ساحل کی ماحولیاتی موت

سینڈزپٹ کے سامنے موجود مینگرووز کے جنگلات میں جو پانی کے چینلز (بیک واٹرز) بہتے ہیں، وہاں پر داخل ہوتے ہی تیز بدبو آپ کا استقبال کرتی ہے۔ بتایا گیا کہ یہ چینل پہلے تازہ پانی سے بھرپور تھے جہاں پر طرح طرح کی مچھلیاں اور دیگر آبی حیات پائی جاتی تھیں۔ مگر سالہا سال سے صنعتی اور رہائشی علاقوں کا فضلہ لیاری ندی میں پھینکا جا رہا ہے جو سفر کرتا ہوا اس چینل میں آگرتا ہے، اور نتیجتاً یہاں پر اب آبی حیات نہ ہونے کے برابر ہے۔

مینگرووز کے جنگلات گندے پانی میں بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ لکھاری
مینگرووز کے جنگلات گندے پانی میں بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ لکھاری

کسی کسی جگہ جنگل نہایت گھنے ہیں جبکہ ان کی زمین عموماً کافی نرم ہوتی ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری
کسی کسی جگہ جنگل نہایت گھنے ہیں جبکہ ان کی زمین عموماً کافی نرم ہوتی ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری

مینگرووز کی جڑیں زمین کے اندر سے باہر کی جانب نکلی ہوتی ہیں — فوٹو بشکریہ لکھاری
مینگرووز کی جڑیں زمین کے اندر سے باہر کی جانب نکلی ہوتی ہیں — فوٹو بشکریہ لکھاری

مائی کولاچی کے نزدیک سیوریج کا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے مینگرووز کے جنگلات میں جا رہا ہے — فوٹو بشکریہ ماہرہ عمر/ہیرالڈ
مائی کولاچی کے نزدیک سیوریج کا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے مینگرووز کے جنگلات میں جا رہا ہے — فوٹو بشکریہ ماہرہ عمر/ہیرالڈ

چینلز میں موجود پانی دھوپ میں سیاہی مائل نارنگی محسوس ہوا جس کی کافی چبھتی ہوئی سی بدبو تھی۔ مینگرووز کے پودوں میں جگہ جگہ خالی تھیلیاں، پینٹ (کلر) کی بالٹیاں، چھالیا کے ریپر، سگریٹ کی ڈبیاں اور دیگر کچرا الجھا ہوا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔

اس کے علاوہ انڈس ڈیلٹا میں میٹھے پانی کی شدید کمی کے باعث یہاں تازہ پانی کی آمد تقریباً ختم ہوچکی ہے جس کا نقصان مینگرووز کے جنگلات کو بھی اٹھانا پڑا ہے، جبکہ سمندر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی کو سونامی سے بچانے والی ڈھال خطرے میں

مینگرووز کے جنگلات گندے پانی میں اپنا وجود تو برقرار رکھے ہوئے ہیں مگر انہیں تازہ پانی کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اس سے ان کے بڑھنے کی شرح تیز ہوجاتی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سے تعلق رکھنے والے عمیر شاہد نے بتایا کہ تقریباً 415 ملین گیلن صنعتی فضلہ روزانہ سمندر میں پھینکا جا رہا ہے جس سے ماحولیات تیزی سے تباہی کی جانب گامزن ہے۔

زمین کے کٹاؤ اور سمندری طوفان سے تحفظ دیتے ہیں

مینگرووز کے جنگلات کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر کی تیز لہروں کے خلاف ایک قدرتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ عمیر شاہد نے بتایا کہ پاکستان میں سال 2000ء تک مینگرووز کے جنگلات بلڈر اور ٹمبر مافیا کے ہاتھوں سکڑ کر اپنا زیادہ تر حصہ گنوا بیٹھے تھے، مگر سالہا سال کی کوششوں سے، بالخصوص 2004ء کے بحرِ ہند کے سونامی کے بعد ان کوششوں میں تیزی آئی اور اب مینگرووز کے جنگلات اپنا رقبہ بتدریج کھونے کے بجائے دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔

عمیر شاہد بتاتے ہیں کہ تاریخی طور پر پاکستان کے پاس دنیا کے چھٹے بڑے مینگرووز جنگلات تھے، لیکن مسلسل کٹائی کی وجہ سے پاکستان آٹھویں درجے تک جا پہنچا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آگاہی اور شجرکاری مہم کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے ہماری عالمی رینکنگ میں ایک درجہ بہتری آئی ہے، اور اب ہم ساتویں نمبر پر ہیں۔

ایندھن اور غذائی ضروریات پورا کرتے ہیں

ان کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی جڑیں چھوٹی مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں کے لیے افزائشِ نسل کی نرسریوں کا کام انجام دیتی ہیں، مگر آلودہ پانی کی وجہ سے اب یہ نرسریاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

وہاں موجود مقامی افراد کا کہنا تھا کہ پہلے ان چینلز میں اتنی آبی حیات ہوتی تھی کہ مقامی لوگ ان کا شکار کرکے آسانی سے گزر بسر کرسکتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔

اس حوالے سے عمیر شاہد کا کہنا تھا کہ فضلے میں امونیا اور دیگر مرکبات کی موجودگی کے سبب یہ گندہ پانی پودوں کے لیے کھاد کی خصوصیات تو فراہم کرتا ہے، مگر مینگرووز کے جنگلات میں آبی حیات اس کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔

مقامی آبادی مینگرووز کی لکڑی کو بطورِ ایندھن بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ اس درخت کا انسانوں کے لیے تحفہ تو ہے، مگر یہ عمل بذاتِ خود قابلِ تحسین نہیں کیوں کہ مینگرووز کے جنگلات ویسے ہی کٹائی کے نشانے پر ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ مقامی آبادی کو متبادل ایندھن فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے لیے اس کی لکڑی نہ کاٹتے رہیں۔

عمیر شاہد نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مینگرووز کے پتوں کو بطور چارہ استعمال کرنے سے مویشیوں کے دودھ میں اضافہ ہوتا ہے، مگر اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

بیک واٹرز میں پانی کی آلودگی اس کے رنگ سے واضح ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری
بیک واٹرز میں پانی کی آلودگی اس کے رنگ سے واضح ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری

انفیکشن کا شکار ایک درخت — فوٹو بشکریہ لکھاری
انفیکشن کا شکار ایک درخت — فوٹو بشکریہ لکھاری

ایک درخت سے پلاسٹک کی تھیلی لٹک رہی ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری
ایک درخت سے پلاسٹک کی تھیلی لٹک رہی ہے — فوٹو بشکریہ لکھاری

مینگرووز کی شجرکاری کے ورلڈ ریکارڈز کتنے فائدہ مند؟

ماہرین کے مطابق کسی بھی سونامی یا سمندری طوفان کے نتیجے میں مینگرووز کے جنگلات ساحلی پٹی کے لیے ڈھال کا کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ گھنے ہوں اور ان کی کٹائی پر پابندی عائد ہو۔ اس سلسلے میں سندھ کے محکمہ جنگلات کی جانب سے سب سے بڑی کوشش 2013ء میں کی گئی تھی جب حکومت اور غیر سرکاری اداروں نے مل کر مینگرووز کے 8 لاکھ سے زائد پودے ایک دن کے اندر لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروایا تھا۔ اب اپریل کے ہی مہینے میں حکومتِ سندھ نے اپنا ہی ریکارڈ توڑتے ہوئے 11 لاکھ سے اوپر مینگرووز کے پودے دوبارہ لگائے ہیں۔

جانیے: ڈی ایچ اے کے خلاف قیوم آباد کی طویل جنگ

مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ادارہ جاتی مفادات کے درمیان ٹکراؤ عام بات ہے، وہاں مینگرووز پر بھی اس ٹکراؤ کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے کیوں کہ درخت محکمہ جنگلات کی ملکیت ہوتے ہیں جبکہ زمین محکمہ ریوینیو کی۔ لہٰذا ان کے درمیان کسی بھی قسم کے عدم اتفاق کا نقصان بالآخر ماحولیات کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ایک بار اگر درخت لگا دیے جائیں، تو اس زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

مگر ماہرین کے مطابق پودے لگانے کے ورلڈ ریکارڈ جہاں خوش آئند ہیں، وہیں ساحلی علاقوں کی ماحولیات اور مینگرووز کے جنگلات کو بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں انڈس ڈیلٹا کو صاف پانی کی دوبارہ فراہمی، بغیر ٹریٹمنٹ سیوریج کے پانی کو سمندر میں پھینکنے پر پابندی، رہائشی اسکیموں کی تعمیر اور دیگر کمرشل ضروریات کے لیے جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔


بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: bilalkmughal@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

بلال کریم مغل

بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

فخر یوسف زئی May 04, 2018 05:56pm
Good work and detail information regarding mangroves .
Ken raees May 04, 2018 11:09pm
I READ ON IUCN WEBSITE THAT PAKISTAN HAS GOT WORLD RECORD IN GROWING MANGROVES IN THE SHORTEST TIME. ITS VERY GOOD NEWS, BUT EVERYONE HAS TO WORK TOWARDS SAVING MANGROVES AND TREES AND ENVIRONMENT ESPECIALLY THE SEA TO GET POLLUTED. GOVT SHOULD PUT BAN ON THROWING TRASH OR POLLUTED WATER IN THE OCEAN AND CLEANUP THE OCEAN AS MUCH THEY CAN.
Fareedwoh May 05, 2018 08:32am
Next step sindh government should declare those people "environmenal terrorist" who damage or polute natural resources.
رمضان رفیق May 05, 2018 11:25am
کچھ دن پہلے دنیا میں سب سے زیادہ اپریل کا درجہ حرارت ایک پاکستانی شہر میں ہونے کی خبر ہمیں جگا دینے کے کافی ہونا چاہیے تھی، لیکن ابھی ہمارے بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہو پائے، اس جیسے آگاہی پھیلانے والے مضامین کی اشد ضرورت ہے، شکریہ بلال کریم مغل
ابوبکر شیخ May 05, 2018 09:11pm
ماحولیات کے حوالہ سے لکھنا بھی اچھا لگتا ہے اور پڑھنا بھی۔ اور لگنا بھی چاہئے۔ان سے ہی ہماری جڑیں جُڑی ہوئی ہیں۔ یہ دریا، سمندر، جھیلیں، جنگل، پھول، پودے، پرندے ہیں تو ہم ہیں۔اگر کہیں ہم یہ سوچ رہے ہیں۔کہ فطرت کی اس دین کو ہم اپنے مفادات کیلئے برباد کردیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں ایسے ہی آسودہ رہیں گی۔۔تو شاید ہم غلط سوچ رہے ہوتے ہیں۔۔۔بلال کریم کی یہ تحریر اس حوالہ سے اہم ہے کہ، یہ ہمیں اپنے آنے والے اچھے دنوں کیلئے ایک راہ دکھاتی ہے۔ تمر ہیں تو ہم سونامی جیسے قہر سے بھی بچ سکتے ہیں۔پر اگر اس دیوار کو ہم نے مفادوں کی گُھن کے حوالے کردیا تو آنے والی نسلیں شاید ہمیں ماحولیات کی بربادی کی وجہ سے معاف نہ کریں۔۔۔بلکہ ہمیں تو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمیں جو ملا، ہم اُس کو اس سے بہتر بناکر مستقبل کے سپرد کریں۔۔کہ امانتوں میں خیانتیں نہیں ہوتی۔ اچھی تحریر کے ساتھ انتہائی خوبصورت تصاویر بھی اس تحریر کی جان ہیں۔
Murad May 06, 2018 04:25am
Pak doesn't have access to drinking water, let alone the sewage treatment... our nation needs to wake up and start electing honest politicians or else the world does not wait for anyone, we'll be crushed under our own weight before we know it.