اداریہ: میٹرنٹی چھٹیوں میں اضافہ ضروری
خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کئی اقدامات درکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے مناسب دنوں کی میٹرنٹی چھٹیاں مگر پاکستان میں پالیسی ساز اس جانب زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ خواتین سے روایتی توقعات رکھ کر، کہ وہی بچوں کا بہتر انداز میں خیال رکھ سکتی ہیں، انہیں کام کی جگہوں پر ’مجبوریوں‘ سے دوچار نہیں کرنا چاہیے؛ ایک ماں بھی ایک ملازمت پیشہ خاتون ہوسکتی ہے۔
اس حوالے سے ہمارے قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اور اس کا تعلق نومولود بچوں کی صحت سے بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے، قابلِ بچاؤ وجوہات سے ہونے والی نومولود بچوں کی بیماری اور اموات کے بارے میں آگاہی کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشرہات مریم اورنگزیب نے ماں کے دودھ کی اہمیت اور بامعاوضہ میٹرنٹی چھٹیوں میں اضافے کے درمیان تعلق کا حوالہ دیا۔
پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد 1958ء کی نسبت آج کہیں زیادہ ہے مگر میٹرنٹی چھٹیوں اور رعایت کے حوالے سے قانون آج بھی وہی ہے جو 1958ء میں بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ایک خاتون کو بامعاوضہ صرف 12 ہفتوں کی چھٹیاں مل سکتی ہیں، ڈلیوری سے 6 ہفتے قبل اور 6 ہفتے ڈلیوری کے بعد، مگر اس پر بھی مناسب انداز میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور خلاف ورزی کرنے والوں پر عائد کیے گئے جرمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
میٹرنٹی مراعات کا ادارتی کلچر نہ ہونے سے کمپنیوں کو اپنی مرضی چلانے کا موقع مل جاتا ہے۔ کئی اداروں میں تو میٹرنٹی چھٹیوں کے لیے کوئی پالیسی ہے ہی نہیں، بعض اوقات، خاص طور پر چھوٹے اداروں میں تو دیکھا گیا ہے کہ وہ حاملہ خواتین کو ملازمت سے ہی فارغ کردیتے ہیں۔ یوں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بچے کو جنم دینا سنگین مالی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، مناسب تعداد اور بامعاوضہ میٹرنٹی چھیٹیاں نہ ہونے سے بڑے ادارے خاص طور پر کارپوریٹ اداروں میں خواتین کو یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا تو ان کی پروموشن نہیں ہوپائے گی۔ مذکورہ تمام وجوہات کی وجہ سے عوامی حلقوں میں خواتین کو مساوی مواقع دینے کا حق حذف ہوجاتا ہے۔
لہٰذا میٹرنی چھٹیوں کو نہ صرف 6 ماہ تک بڑھا دیا جائے بلکہ ہر کمپنی کو اپنی عمارتوں کے اندر بچوں کی نرسریاں بنانی چاہئیں۔ احساسِ جرم سے آزاد ماں ہی زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل ملازمہ ثابت ہوتی ہے۔
یہ اداریہ 30 اپریل 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔