• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’عمران خان سمیت 6 سیاستدانوں کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ‘

شائع July 10, 2018

اسلام آباد: نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں 6 سیاسی رہنماؤں کے نام پیش کردیے جنہیں ممکنہ طور پر انتخابی مہم کے دوران نشانہ بنائے جانے کا خدشہ طاہر کیا گیا ہے۔

ان 6 افراد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما اسفند یار ولی اور امیر حیدر ہوتی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اکرم خان درانی اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے صاحبزادے اور الیکشن کے اُمیدوار طلحہ سعید کے نام شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا اُمیدواروں کی سیکیورٹی پر تحفظات کا اظہار

واضح رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مجموعی طور پر ملک کی داخلی صورتحال کے ساتھ آئندہ عام انتخابات کے تحت سیکیورٹی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔

سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے نیکٹا کے ڈائریکٹر عبید فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیکٹا کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ سمیت صوبوں کے محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 12 خطرات کے الرٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: انتخابات میں سیاسی قیادت کو سیکیورٹی خطرات ہیں،نیکٹا

اس موقع پر سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رحمٰن ملک نے ان خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو خطرات کا سامنا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری بابر یعقوب کمیٹی کو پہلے ہی آگاہ کرچکے ہیں کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر اشتعال انگیزی کا خدشہ ہے، اور ہدایت کی کہ ان الرٹ کو سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔

سینیٹر رحمان ملک نے یہ تجویز بھی دی کہ صوبائی محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوکل پرسن کو نامزد کردیں۔

یہ بھی پڑھیں: جن سیاست دانوں کو خطرہ ہے ان کی سیکیورٹی بڑھائی جائے، رحمٰن ملک

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لیاری کے دورے کے موقع پر پیش آنے والی ناخوشگوار صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر سنجیدہ نوعیت کے ’سیکیورٹی لیپس‘ تھے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت، ووٹرز، انتخابی امیدوار کی حفاظت کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ لینے کے لیے ہم ان کیمرہ اجلاس منعقد کریں گے۔

نیب کی سیکیورٹی

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، اسلام آباد وقار احمد چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے جس میں نیب کی عمارت کو بارود بھری گاڑی سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی۔

مزید پڑھیں: ’وزارت داخلہ سیاست دانوں کی سیکیورٹی اقدامات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے‘

ان کا کہنا تھا کہ دھمکی موصول ہونے کے بعد ہم نے تفصیلی طور پر عمارت کی جانچ پڑتال کی، اس سے ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت نیب کے قریب ہی واقع ہے جہاں بھاری گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جبکہ عمارت کی بیرونی دیوار بھی یکساں تعمیر نہیں کی گئی اور مختلف مقامات سے کمزور ہے، جس کے باعث ہم نے سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔

ڈی آئی جی اسلام آباد نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نیب کے پاس 48 سیکیورٹی گارڈز موجود ہیں جبکہ عمارت میں 40 کے قریب سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں، اس کے علاوہ نیب کی عمارت کی سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی مدد سے بھی نگرانی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات کیلئے 20 ہزار پولنگ اسٹیشنز، 60 ہزار پولنگ بوتھ حساس قرار

ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں موجود نیب کی دیگر عمارتوں کی سیکیورٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے خامیوں کو دور کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔

اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین رحمٰن ملک نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں نیب سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے اس لیے اس کی فول پروف سیکیورٹی کا اہتمام کیا جائے۔

اجلاس میں کمیٹی نے چولستان میں پیش آنے والے افسوسناک واقع کا بھی نوٹس لیا جس میں 3 کم عمر بہنیں لاپتہ ہونے کے بعد صحرا میں مردہ پائی گئیں۔

اس موقع پر مذکورہ بچیوں کے والدین بھی اجلاس میں موجود تھے جنہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ واقعہ 13 جون کو پیش آیا تھا۔

مزید پڑھیں: انتخابات 2018 کے دوران فوج سیکیورٹی کے فرائض انجام دے گی

اس حوالے سے پنجاب پولیس کے نمائندے نے مذکورہ واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجوہات کا علم نہیں ہوا۔

جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتےہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ کو اگلے اجلاس میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔


یہ خبر 10 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024