کچھ بچوں کے دانت دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خراب کیوں ہوتے ہیں؟
اسکول کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کم از کم ایک چوتھائی بچوں کے دانت سڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب منہ میں موجود بیکٹیریا چینی کو توڑ کر تیزاب بناتے ہیں جو دانتوں پر حملہ کرکے انہیں گھولنا شروع کردیتا ہے۔
میٹھی چیزوں سے پرہیز کرنا اور عمر کے حساب سے فلورائیڈڈ ٹوتھ پیسٹ کا استعمال بچوں میں صحتمند دانت یقینی بنانے کا اب بھی بہترین طریقہ ہے۔ مگر والدین کی زبردست کوششوں کے باوجود بھی چند بچوں کے دانت قدرتی طور پر دوسرے بچوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں اور آسانی سے خراب ہوجاتے ہیں۔
آسٹریلیا میں ہونے والی حالیہ تحقیقوں کے مطابق اسکول کی عمر سے چھوٹے 14 فیصد بچے ہائپومنرلائزڈ سیکنڈ پرائمری مولرز (ایچ ایس پی ایم) (hypomineralised second primary molars" (HSPM کا شکار ہوتے ہیں جس سے بچوں کے دانتوں کی باہری سطح درست طریقے سے نشونما نہیں پاتی اور وہ کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی خرابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
پڑھیے: اچھی پرورش کے 10 رہنما اصول
بچوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟
ایچ ایس پی ایم کے شکار بچوں کے دانتوں پر سفید یا پیلے دھبے اور کھردرا پن نمودار ہوجاتا ہے کیونکہ ان جگہوں سے اینامل یا باہری خول ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔
یہ دانت اتنے کمزور ہوجاتے ہیں کہ وہ چبانے کا کام مناسب انداز میں نہیں کر پاتے اور مسوڑوں سے باہر آنے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔
یہ دانت اکثر انتہائی حساس ہوتے ہیں اور بچے ان میں اٹھنے والے درد کی وجہ سے انہیں برش کرنے سے کتراتے ہیں۔ چونکہ دانت پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں، اس لیے برش نہ کرنے کی وجہ سے یہ مزید تیزی سے خراب ہوجاتے ہیں۔
اینامل سے چپک جانے والی فلنگ کے عمومی طریقے بھی کام نہیں کرتے کیونکہ اینامل کافی خراب ہوتا ہے۔ اس لیے ان بچوں کو بار بار ڈینٹسٹ کے پاس جانا پڑتا ہے۔ چنانچہ سائنسدانوں نے پایا ہے کہ بچوں میں ڈینٹسٹ کے پاس جانے سے متعلق اینگزائٹی اور فوبیا میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
پڑھیے: وہ 7 باتیں جن پر والدین خود کو غیر ضروری قصوروار سمجھتے ہیں
وجوہات
دانتوں کا اینامل دانتوں کے مسوڑوں سے باہر آنے سے قبل ہی تیار ہوجاتا ہے۔ بچوں کی داڑھیں حمل کے درمیانی عرصے میں بننا شروع ہوتی ہیں اور پیدائش تک مکمل ہوجاتی ہیں۔
کھال اور ہڈی کے برعکس دانتوں کا اینامل قدرتی طور پر ٹھیک نہیں ہوسکتا اس لیے جب 2 سال کی عمر تک دوسری پرائمری داڑھیں مسوڑوں سے باہر آتی ہیں تو اینامل کی خرابی وہیں موجود ہوتی ہے۔
2 سال کی عمر تک بچوں کو دانتوں کا چیک اپ تجویز کیا جاتا ہے مگر صرف 3 میں سے ایک بچہ 4 سال کی عمر تک ڈینٹسٹ کے پاس جا پاتا ہے۔ نقصان کے شکار دانت اکثر تب تک توجہ میں نہیں آتے جب تک وہ ٹوٹ نہ جائیں یا انفیکشن کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس صورتحال میں انہیں نکالنا پڑتا ہے۔
جڑواں بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ یہ وجوہات ضروری نہیں کہ جینیاتی ہوں بلکہ ان کی وجوہات حمل یا دورانِ پیدائش ہونے والی کوئی چیز بھی ہوسکتی ہے۔ ایچ ایس پی ایم کا تعلق حمل کے دوران بیماری، سگریٹ اور شراب نوشی سے قائم کیا تو گیا ہے مگر اب بھی اس تعلق کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق جاری ہے۔
پڑھیے: بچوں میں سلیقہ پیدا کرنے کے لیے 6 اہم تجاویز
علاج
اینامل کو کمزور کرنے والی وجوہات کا مطلب ہے کہ جہاں صحت بخش غذا اور باقاعدگی سے برش کرنا دانتوں کی اچھی صحت کے لیے مددگار ہوتے ہیں وہیں اضافی حفاظتی تدابیر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈینٹسٹ دانتوں کے ٹوٹنے سے قبل ان کے کمزور ہونے کی علامات کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ وہ دانتوں کو سیل یا فلنگز لگا کر محفوظ بناسکتے ہیں جس سے کمزور حصے ڈھک جائیں۔
شدید متاثر دانتوں میں علاج کے لیے وقت کم ہوتا ہے اس لیے باقاعدگی سے ڈینٹسٹ کے پاس جانا بہت اہم ہے۔ بچوں کو ڈینٹسٹ کے پاس 12 ماہ کی عمر میں پہلی بار لے جانا چاہیے یا پھر تب جب دانت پہلی بار باہر آئیں۔