کرتارپور بارڈر کھولنا کیوں ضروری تھا؟
کرتارپور کو جاننے سے پہلے ایک مختصر نظر بابا گرو نانک دیو جی کی زندگی پر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے کرتارپور پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔
گرو نانک دیو جی 29 نومبر 1469ء کو پاکستان کے موجودہ صوبہ پنجاب کے علاقے ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے اور 22 ستمبر 1539ء کو پاکستان کے موجودہ صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں کرتارپور کے علاقے میں وفات پائی۔
گرو نانک کے والد مہتا کلیان داس اکاؤنٹنٹ تھے اور والدہ ماتا ترپتا مذہبی خاتون تھیں۔ دونوں ہندو مذہب کے پیروکار تھے۔
گرو نانک کی تعلیمات تمام انسانیت کے لیے تھیں۔ انہیں اپنی بڑی بہن سے خاص انسیت رکھتے تھے۔ گرو نانک نے 24 نومبر 1487ء کو ماتا سلکھانی سے شادی کی۔ سری چاند اور لکھمی چاند گرو نانک کے 2 بیٹے تھے اور سری چاند نے گرونانک کی تعلیمات کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مقامی صحافی قاسم ارشد سے بات کرتے ہوئے یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ بابا گرونانک کی وفات کرتارپور میں ہوئی لیکن ان کی تدفین کے حوالے سے متضاد رائے ملتی ہے۔ گرونانک کی وفات کے بعد سکھ ان کی میت کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے اور مسلمان اپنے ساتھ۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے فیصلہ ہوا کہ رات میت کو کپڑے میں ڈھک دیتے ہیں اور صبح آکر اس کا فیصلہ کریں گے۔
جب اگلی صبح آ کر کپڑا اٹھایا گیا تو میت موجود نہیں تھی اور اس کی جگہ پھول اور ایک چادر تھی۔ مسلمانوں نے آدھا کپڑا اور پھول کو دفنا کر قبر بنا دی اور سکھوں نے آدھا کپڑا اور پھول جلا کر سمادھی بنا دی۔ آج اسی مقام پر گرونانک کا گردوارا قائم ہے۔ یہاں صرف سکھ نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان بھی باقاعدگی سے حاضری دینے آتے ہیں۔
آئیے اب کرتارپور کے بارے میں جانتے ہیں۔
کرتارپور ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے۔ یہ علاقہ پاک بھارت سرحد کے ساتھ منسلک ہے جو 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں سے شدید متاثر ہوا ہے۔
کرتارپور بارڈر 14 اگست 1947ء میں خون ریزی کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے۔ یہاں کی مشہور ذاتیں گجر، جٹ اور راجپوت ہیں۔ لیکن زیادہ آبادی مسلمان گجر برادری کی ہے۔ 1947ء میں بھی یہاں سکھ اور ہندو برادریاں اقلیت میں آباد تھیں اور مسلمان اکثریت میں تھے۔ تقسیم کے بعد زیادہ تر ہندو اور سکھ ہندوستان ہجرت کرگئے اور مسلمان ہندوستان سے پاکستان آکر کرتارپور میں آباد ہوگئے۔
کرتارپور کو بابا ناننک دیو جی نے 1522ء میں آباد کیا تھا۔ زندگی کے آخری 18 سال وہیں قیام کیا اور 22 ستمبر 1539ء میں وفات پائی، جس کے بعد ان کی جائے وفات پر گردوارا تعمیر کیا گیا، جو سکھ برادری کا سب سے پہلا گردوارا ہے۔
پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے 1 لاکھ 35 ہزار 600 روپوں میں گردوارے کی موجودہ عمارت تعمیر کروائی، جس پر حکومتِ پاکستان نے 1995ء میں مرمتی کام کروایا اور 2004ء میں اسے مکمل طور پر اپنی اصلی حالت میں بحال کردیا۔ جنگل اور دریائے راوی کے قریب ہونے کے باعث اس کی دیکھ بھال ایک مشکل کام ہے۔
بابا جی گرو نانک سے سکھ برادری کی محبت کا عالم یہ ہے کہ سکھ برادری بھارت کے بارڈر پر گھنٹوں کھڑے ہوکر دوربین سے گردوارے کا نظارہ کرتی ہے اور اسے باعثِ برکت سمجھتی ہے۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کے سابق چیئرمین جناب صدیق الفاروق سے جب اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ جب سے پاکستان بنا ہے، سکھ کمیونٹی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ کرتارپور بارڈر سکھوں کے لیے کھولا جائے، یہاں ایک کوریڈور بنایا جائے جہاں سکھوں کو ویزے کے بغیر آنے جانے کی اجازت ہو۔ لیکن یہ معاملہ سیاست کی نذر ہوتا رہا۔
اس مطالبے میں جان اس وقت پڑی جب 1999ء میں بھارتی وزیرِاعظم اٹل بیہاری واجپائی پاک بھارت دوستی بس کے ذریعے براستہ واہگہ بارڈر پاکستان آئے۔
1999ء سے پہلے پاکستان میں موجود بابا گرو نانک کے گردوارے کو بھارتی سکھوں کی ایک تنظیم شیرومنی گردوارا پر بھند کمیٹی چلاتی تھی۔
جنم دن کے موقعے پر جو چندہ ڈبوں (سکھ اسے گولکھ کہتے ہیں) میں اکٹھا ہوتا تھا وہ بھارتی سکھ تنظیم اپنے ساتھ ہندوستان لے جاتی تھی، جس کی وجہ سے گردوارے پر رقم خرچ نہیں ہوتی تھی اور گردوارا خستہ حالی کا شکار ہو رہا تھا۔
1999ء میں حکومتِ پاکستان نے پاکستان سکھ گردوارا پربندھ کمیٹی بنائی اور شیرومنی گردوارا پربھند کمیٹی سے تمام انتظامات لے کر پربندھ کمیٹی کے سپرد کردیے۔ بھارتی سکھوں نے کچھ وقت تو احتجاج کیا لیکن بعد میں معاملات معمول پر آگئے۔ حکومتِ پاکستان نے گولکھ سے آئے کروڑوں روپے لگا کر اس گردوارے کی حالت کو بہتر بنایا۔
صدر پرویز مشرف نے 2000ء میں کرتارپور بارڈر آئیڈیے کی منظوری دی اور اس کی تعمیر کے لیے بیشتر ٹینڈر بھی جاری کیے۔ لیکن 18 سال تک یہ منصوبہ پاک بھارت کشیدہ تعلقات اور دہشت گردی کی نذر ہوتا رہا۔ ستمبر 2018ء میں وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھارتی پنجاب کے وزیرِ سیاحت نوجوت سنگھ سدھو کو کرتارپور بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا تو پوری دنیا میں موجود کروڑوں سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
جب وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سرکاری طور پر کوریڈور کھولنے کا اعلان کیا تو نوجوت سنگھ سدھو نے اس کا خیر مقدم کیا اور وزیرِاعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔
اگرچہ بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور مودی سرکار نے اس امر پر سیاست کھیلنا چاہی لیکن پاکستانی حکومت کی ثابت قدمی اور نوجوت سنگھ سدھو کے بھارت میں دیے گئے بے خوف اور لاجواب انٹرویوز نے بھارت سرکار کی ناک میں دم کردیا۔
اس کوریڈور کی کل لمبائی 6 کلومیٹر ہے، 4 کلومیٹر پاکستان اور 2 کلومیٹر ہندوستان میں تعمیر ہوگا۔
پاکستان کے 4 کلومیٹر کے راستے میں دریائے راوی آتا ہے، لہٰذا دریائے راوی پر ایک پل بھی بنایا جائے گا۔
ہندوستان کی جانب سے ڈیرہ بابا نانک سے پاک بھارت کرتارپور بارڈر کا فاصلہ 2 کلو میٹر ہے۔ کرتارپور بارڈ کے ہندوستانی سائیڈ پر درشن استھل قائم ہے جہاں سے دوربین کے ذریعے سکھ کرتارپور میں بابا گرونانک کے گردوارے کا نظارہ کرتے ہیں۔
کرتارپور بارڈر سے فائدہ کیا ہوگا؟
یہ سوال اکثر پوچھا جارہا ہے کہ اس بارڈر کو کھولنے کی آخر ضرورت کیا ہے اور اس کے کھلنے سے بھارت سے آنے والے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ تو معاملہ یہ ہے کہ جو سکھ بابا گرونانک کے گردوارے پر آتے ہیں وہ واہگہ بارڈر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ سکھ یاتری بس یا ٹرین کے ذریعے واہگہ بارڈر سے لاہور آتے ہیں اور لاہور سے 120 کلومیٹر کا سفر طے کرکے کرتارپور پہنچتے ہیں۔
زیادہ تر سکھ بس کے ذریعے یہ سفر کرتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ہوائی جہاز سے سفر کرنے کی سہولت بھی دے رکھی ہے اور لاہور ایئرپورٹ سے سیالکوٹ ایئرپورٹ تک جہاز میں سفر کرنے کی بھی سہولت موجود ہے۔ سیالکوٹ سے کرتارپور کار یا بس میں سفر بہت آسان اور آرام دہ رہتا ہے۔
واہگہ بارڈر سے پاکستان آنے والے سکھوں کو سرکاری کمپلکس میں رہائش کی سہولت بھی دی جاتی ہے لیکن وہ تمام سکھوں کے لیے ناکافی اور ناممکن ہے۔ لہٰذا ان کے رہنے کے مسائل بہت سنجیدہ ہیں۔ اسی وجہ سے وہ انتہائی کم عرصہ کے لیے پاکستان آ پاتے ہیں۔
لیکن اب کرتارپور راہداری بننے سے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوسکے گا کیونکہ کرتارپور جانے کے لیے واہگہ بارڈر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور یوں 120 کلومیٹر کا سفر صرف 4 کلومیٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔
لہٰذا ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ پاکستان کی جانب سے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، جس سے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ ساتھ ساتھ بھارت کے لیے یہ ایک سبق بھی ہے کہ اگر انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجود ہو تو پھر ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے اختیار میں موجود ہر کام کو انجام دینے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
تبصرے (2) بند ہیں