نو-بال کی وجہ سے پی ایس ایل کے بدلتے نتائج کا احوال
کرکٹ کے کھیل کے مختلف پہلوؤں سے جہاں ایک ٹیم کے چاہنے والے محظوظ ہوتے ہیں وہیں دوسری ٹیم کے چاہنے والے اسی پہلو سے افسردگی اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے۔ میرے خیال میں ’نو-بال‘ بھی ایک ایسا ہی پہلو ہے۔ اس نو-بال کا باؤلنگ کرنے والی ٹیم کو نقصان ہی نقصان ہے جبکہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو نو-بال کے 2 بڑے فائدے ہوتے ہیں، پہلا فائدہ یہ کہ اس گیند پر بیٹسمین کو آؤٹ قرار نہیں دیا جاسکتا اور دوسرا فائدہ یہ کہ اگلی گیند فری ہٹ ہوتی ہے، یعنی یہ کہ اگر اس گیند پر بھی کھلاڑی آؤٹ ہوجائے تو اس کو ایک زندگی مل جاتی ہے۔
نو-بال کرنا ہر طرح کی کرکٹ میں باؤلنگ ٹیم کے لئے نقصان دہ ہے اور یہ نقصان ایک روزہ یا T20 کرکٹ میں اس لیے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ اگلی گیند کو امپائر فری ہٹ قرار دے دیتا ہے اور بیٹسمین آؤٹ ہونے کے خوف سے آزاد ہوکر اس فری ہٹ قرار دینے والی گیند کو مکمل آزادی کے ساتھ کھیلتا ہے۔
کرکٹ کھیلنے والے تمام ہی ممالک اپنے باؤلرز کو ٹریننگ کے دوران خاص طور پر اس بات کی مشق کرواتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نو-بال کروانے سے محفوظ رکھ سکیں۔ انگلینڈ کی ٹیم نے تو نو-بال سے محفوظ کرنے کی اتنی شاندار مشق کی ہے کہ ان کے باؤلرز نے گزشتہ 2 سال کے عرصے میں ایک روزہ کرکٹ میں کوئی ایک بھی نو-بال نہیں کروائی تھی، اور اس تسلسل کا اختتام ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں اس وقت ہوا جب آل راؤنڈر بین اسٹوک نے ایک نو-بال کی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ گزشتہ 2 سالوں میں انگلینڈ کے باؤلرز نے 11 ہزار گیندیں کروائی تھیں۔
دنیا کی ٹیمیں نو-بال کے مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے خاصی محنت کر رہی ہیں۔ پاکستان نے بھی اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے بہت محنت کی ہے لیکن ابھی مزید محنت درکار ہے۔ پاکستان کو اپنے جالیہ دورہ جنوبی افریقہ کے دوران ایک روزہ میچوں کی سیریز میں ایک سخت مقابلے کے بعد شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ کیپ ٹاؤن کے مقام پر کھیلے جانے والے سیریز کے آخری میچ میں ہدف کا تعاقب کرنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم کے اوپنر کوئنٹن ڈی کوک اننگز کے تیسرے اوور میں جس گیند پر آؤٹ ہوئے وہ نو-بال تھی۔ ڈی کوک نے باؤلر کی اس غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 83 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو میچ اور سیریز کا فاتح بنوا دیا۔
آج کل متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے مقابلے جاری ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کیپ ٹاؤن سے شروع ہونے والی نو-بال کرنے کی بیماری نے عثمان شنواری کے ساتھ ساتھ کچھ اور باؤلرز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں میں جہاں بہت سی نو-بالز ہوچکی ہیں، وہیں کم از کم 3 نو-بالز ایسی ہیں جن کی وجہ سے ٹیم ایک جیتا ہوا مقابلہ ہار گئی۔
ملتان سلطان بمقابلہ لاہور قلندرز
اب تک کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں کے بعد ملتان سلظانز پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہے اور ان کے اگلے مرحلے میں جانے کے راستے تقریباً بند ہوچکے ہیں۔ ملتان سلطانز کی جہاں کارکردگی میں تسلسل کا فقدان تھا وہیں چند مواقعوں پر قسمت نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔
ملتان سلطانز اور لاہور قلندر کے مابین پاکستان سپر لیگ کا 10واں میچ شارجہ میں کھیلا گیا۔ اس میچ میں لاہور قلندرز نے ٹاس جیت کر ملتان سلطانز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ سلطانز نے اس دعوت کو خوش دلی سے قبول کیا اور مقررہ اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 200 رنز بنالیے۔ اس بڑے ہدف کے تعاقب میں لاہور قلندر نے بھی انتہائی شاندار آغاز کیا اور 10اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر 96رنز بنا لئے۔
اس موقع پر اننگز کا 11واں اور اپنا پہلا اوور کرنے والے جنید خان نے فخر زمان اور سلمان بٹ کو آؤٹ کرکے اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کردی۔ ان 2 وکٹوں کے گرنے کی وجہ سے لاہور قلندرز پر دباؤ پڑا۔ پانچویں وکٹ کے لئے تجربہ کار کھلاڑی اے بی ڈی ویلیئرز اور ڈیوڈ ویزے کی اچھی شراکت داری جاری تھی لیکن اس کے باوجود جیت کے لیے درکار رنز حاصل کرنے کی شرح مسلسل بڑھ رہی تھی۔
آخری 3 اوورز میں قلندرز کو میچ جیتنے کے لیے 41 رنز درکار تھے۔ اننگز کا 18واں اوور کرنے کی ذمہ داری جنید خان کو سونپی گئی۔ اس اوور کی ابتدائی 4 گیندوں پر 8 رنز بنے۔ اوور کی پانچویں گیند پر ڈیوڈ ویزے نے زوردار شاٹ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ کیچ آؤٹ ہوگئے۔ ابھی سلطانز خوشی منانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ صورتحال اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی جب امپائر نے اس بال کو نو-بال قرار دے دیا۔
اس محض ایک نو-بال کی وجہ سے ناصرف ویزے آؤٹ ہونے سے بچ گئے بلکہ ان کی ٹیم کو فری ہٹ بھی مل گئی اور اس فری ہٹ سے اے بی ڈی ویلیئرز نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور گیند کو ریورس سوئپ کرکے 6 رنز کے لئے باؤنڈری لائن سے باہر پھینک دیا۔
یوں جنید خان نے اننگز کے اس 18ویں اوور میں 16 رنز دیے اور ان کی نو-بال کی غلطی نے ان کے ٹیم کی یقینی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔ یہ میچ پی ایس ایل کی تاریخ میں ہونے والے تمام مقابلوں میں واحد میچ ہے جس میں دونوں ہی ٹیموں نے 200 سے زیادہ رنز اسکور کئے۔ یوں لاہور قلندرز کے پاس ٹورنامنٹ میں سب سے بڑا ہدف عبور کرکے جیت حاصل کرنے کا اعزاز بھی آگیا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ کراچی کنگز
پاکستان سپر لیگ کا 18واں میچ دبئی میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور کراچی کنگز کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان نے ٹاس جیت کر کراچی کنگز کو بیٹنگ کی دعوت دی جنہوں نے مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 168رنز بنائے۔ ایک موقع پر یوں لگ رہا تھا جیسے کراچی کنگز 200 سے زیادہ زنز بنالیں گے، لیکن وقفے وقفے سے گرنے والی وکٹوں کی وجہ سے وہ بہت بڑا اسکور کرنے میں ناکام رہے۔
اس ہدف کے تعاقب میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا آغاز زیادہ اچھا نہیں رہا اور ان کے 3 کھلاڑی 7 اوورز میں صرف 47 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے۔ آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں میں جارحانہ مزاج اور اِن فارم لیوک رونکی بھی شامل تھے۔ اس موقع پر آصف علی اور فل سالٹ نے اپنی ٹیم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کا بیڑہ اٹھایا اور اسکور کو آگے بڑھانا شروع کیا۔
14 اوورز کے اختتام تک اسلام آباد یونائیٹڈ نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 103 رنز بنا لئے تھے اور اب آخری 6 اوورز میں 66 رنز کی ضرورت تھی۔ اس موقع پر کپتان نے عثمان شنواری کو باؤلنگ کے لئے بلایا۔ شنواری نے اس اوور میں اپنی روایت کو برقرار رکھا اور انہوں نے جو تیسری بال کروائی وہ نو-بال تھی۔ آصف علی نے اس نو-بال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور گیند کو 6 رنز کے لئے میدان سے باہر پھینک دیا۔ اگلی بال جو فری ہٹ تھی اس کو بھی آصف علی نے ضائع نہیں ہونے دیا اور اس پر بھی 4 رنز حاصل کرلیے۔
عثمان شنواری کے اس اوور میں 16 رنز بنے اور یہ اوور اسلام آباد کے لیے ہدف کو حاصل کرنے کی بنیاد بنا۔ عثمان شنواری نے گزشتہ سال بھی ایک نو-بال کروائی تھی جس کے باعث کراچی کنگز کی ٹیم لاہور قلندرز کے خلاف ایک یقینی فتح سے محروم ہوگئی تھی۔ اس میچ میں شکست کے باعث کراچی کنگز کو اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کے لئے اپنے باقی تمام میچ جیتنے ہیں اور اگر کراچی کی ٹیم اگلے راؤنڈ میں نہیں پہنچ سکی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عثمان شنواری کے سر بھی ہوگی۔
پی ایس ایل کے اس سیزن میں عثمان شنواری کی غیر تسلی بخش کارکردگی سے اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ شاید قومی ٹیم میں اپنی جگہ شاید کھو دیں.
پشاور زلمی بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ
دبئی میں کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ کے 21ویں میچ میں پشاور زلمی نے ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم کو میچ کی آخری گیند پر شکست دی۔ اس میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اسلام آباد یونائیٹڈ نے 176 رنز بنائے۔ اس ہدف کے تعاقب میں پشاور زلمی نے جارحانہ آغاز کیا لیکن پھر چوتھے اوور میں کامران اکمل کے آؤٹ ہونے کی وجہ سے ہدف کی جانب ان کی پیش قدمی کو ایک بڑا جھٹکا لگا۔
13 اوورز کے اختتام پر زلمی نے صرف 86 رنز بنائے تھے۔ اننگز کا 13واں اوور کرنے کی زمہ داری فہیم اشرف کو دی گئی لیکن انہوں نے ایک انتہائی خراب اوور کیا اور مخالفین کو میچ میں واپس لے آئے۔ اس اوور کی پہلی 3 گیندوں پر 14 رنز بن گئے۔ اگرچہ اوور کی چوتھی گیند پر کوئی رن نہیں بنا، لیکن فہیم نے پانچویں گیند نو-بال کروا کر ایک بڑی غلطی کردی، کیونکہ لیام ڈاسن نے نہ صرف اس گیند پر چھکا مارا بلکہ اگلی ملنے والی فری ہٹ پر بھی گیند کو باوئنڈری لائن سے باہر پھینک دیا۔ یوں صرف اس اوور میں فہیم اشرف نے 27 رنز دے کر پشاور زلمی کی امیدوں کو ایسا زندہ کیا کہ وہ یہ مقابلہ 4 وکٹوں سے جیت گئے۔
ملتان سلطان بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
ٹورنامنٹ کے اس 22ویں میچ میں ملتان سلطانز 121 رنز کے ایک کم ہدف کا دفاع کر رہا تھا اور میچ جیتنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ جلد از جلد وکٹیں حاصل کرے۔ لیکن اپنی ٹیم کی اس خواہش کی راہ میں آف اسپنر نعمان علی اس وقت خود ہی بڑی رکاوٹ بن گئے جب اننگز کا ساتواں اوور کرتے ہوئے انہوں نے احمد شہزاد کو ایک ایسی گیند پر LBW آؤٹ کیا جو نو-بال تھی۔
نعمان کی اس حرکت پر شاہد آفریدی نے ہلکے پھلکے انداز میں ان کے سر کے پیچھے ہاتھ مار کر ان کی سرزنش بھی کی۔ یہ بات شروع سے ہی کہی جاتی ہے کہ اگرچہ فاسٹ باؤلرز کا نو-بال کرنا جرم ہے، لیکن اسپنرز کے لیے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس میچ میں اگر احمد شہزاد جلد آؤٹ ہو بھی جاتے پھر بھی ملتان کا میچ جیتنا آسان نہیں تھا مگر بھی ایک اہم موقع پر نو-بال کرکے نعمان نے اپنی ٹیم کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا تھا۔
پاکستان کو اگلے مہینوں میں ورلڈ کپ سمیت مختصر فارمیٹ کی کرکٹ کے بہت میچ کھیلنے ہیں۔ پاکستان کے باؤلنگ کوچ کو اور باؤلرز دونوں کو چاہیئے کہ نو-بال کی اس وبا سے جلد سے جلد چھٹکارا پائیں کیونکہ ورلڈ کپ کے کسی اہم میچ میں اگر پاکستان کو اپنے باؤلر کی جانب سے کی گئی نو-بال کی وجہ سے شکست ہوئی تو یہ ایک ایسی فاش غلطی ہوگی جس کو کرکٹ کے شائقین کبھی معاف نہیں کریں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں