• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

آخر کروڑوں افراد کے ہاتھوں میں ایک جیسے تل کیوں ہوتے ہیں؟

شائع June 2, 2019
— ٹوئٹر فوٹو
— ٹوئٹر فوٹو

گزشتہ دنوں ٹوئٹر میں ایک پوسٹ میں ایسی حقیقت سامنے آئی جس نے دنیا بھر کے لوگوں کو چونکا کر رکھ دیا کیونکہ کروڑوں افراد میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔

اور وہ ہے ہاتھ پر کلائی سے کہنی کے درمیان ایک تل کی موجودگی۔

جی ہاں واقعی دنیا بھر میں کروڑوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ اربوں افراد کے ہاتھ میں کہنی کے درمیان کہیں نہ کہیں تل یا چھائی وغیرہ موجود ہوسکتے ہیں اور اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے۔

تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب امریکی جریدے ٹائم کی ایک رپورٹ میں طبی ماہر ڈاکٹر جوائس پارک کے حوالے سے دیا گیا ہے جو کہ جلدی امراض کی ماہر ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر وائرل اس بحث کو پرمزاح تو قرار دیا مگر اس کی وجہ بھی بتائی جو کہ سورج کی روشنی میں گھومنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تل یا چھائیاں بنیادی طور پر جلد پر ایسے مقامات ہوتے ہیں جہاں جلد کی رنگت کا تعین کرنے والے جز میلاٹونین کا اجتماع یو وی ریڈی ایشن کے نتیجے میں ہوجاتا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہاتھ، کلائیاں اور کہنیاں وغیرہ دھوپ کی زد میں زیادہ رہتے ہیں۔

جیسے موٹرسائیکل یا گاڑی چلاتے ہوئے اکثر افراد کا ایک ہاتھ مسلسل دھوپ کی زد میں رہ سکتا ہے چاہے انہوں نے قمیض ہی کیوں نہ پہن رکھی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک اور وجہ اس مخصوص حصے میں سن اسکرین کا استعمال نہیں کرنا ہوتی ہے۔

اس حوالے سے نیویارک سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر جوشوا زیکنکر کا خیال ذرا مختلف ہے اور ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر یہ تل یا چھائیاں بے ضرر ہوتے ہیں جو کہ میلاٹونین کے اجتماع کا نتیجہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بہت زیادہ عام ہے اور لگ بھگ ہر ایک کے ہی بازوﺅں میں کم از کم ایل تل یا چھائی ہوسکتی ہے تو ٹوئٹر پر وائرل یہ بحث حیران کن نہیں کیونکہ سورج کی روشنی کے نتیجے میں یہ نشان زیادہ گہرے ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ویسے تل یا چھائیاں جسم کے کسی بھی حصے میں نمودار ہوسکتے ہیں۔

تو ان تلوں کی موجودگی کی وضاحت بہت سادہ ہے مگر اس نے سوشل میڈیا صارفین کے ذہن ضرور گھما کر دیئے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024