• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کیمپ جیل میں 3500 قیدیوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جیل حکام

شائع July 17, 2019 اپ ڈیٹ July 18, 2019
جیل حکام نے نیب لاہور میں بریفنگ دی—فائل/فوٹو:ڈان
جیل حکام نے نیب لاہور میں بریفنگ دی—فائل/فوٹو:ڈان

پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے سینئر حکام نے قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کے حکام کو جیلوں میں قیدیوں کو درپیش مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور کے کیمپ جیل میں 3 ہزار 500 قیدیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔

نیب لاہور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق محکمہ جیل خانہ جات کے سینئر حکام نے ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور اور عہدیداروں کو نیب آفس میں بریفنگ دی جن میں ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ داخلہ خضر افضال، آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم، ڈی آئی جی جیل خانہ جات ملک مبشر، ایس پی ڈسٹرکٹ جیل اسد جاوید اور سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل لاہور اعجاز اصغر شامل تھے۔

ڈی جی نیب لاہور کا کہنا تھا کہ جسمانی ریمانڈ کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل جانے والے ملزمان کی جانب سے جیل میں مبینہ ناروا سلوک کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔

مزید پڑھیں:جیل میں قید رانا ثنا اللہ کی تصویر لیک ہونے پر مریم نواز کی کڑی تنقید

ان کا کہنا تھا کہ دوران بریفنگ جیل حکام نے قیدیوں کے حوالے سے درپیش مسائل اور انتظامی سہولیات کے فقدان کے شکایات کے انبار لگا دیے۔

محکمہ جیل خانہ جات کے افسران کا کہنا تھا کہ نیب کے مقدمات میں گرفتار 150 ملزمان اس وقت کیمپ جیل اور کوٹ لکھپٹ جیل میں موجود ہیں جبکہ مجموعی طور پر پنجاب کی جیلوں میں 46 ہزار قیدی ہیں۔

بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ جیلوں کی کمی کے باعث مختلف جیلوں میں قیدیوں کی دگنا تعداد رکھنے پر مجبور ہیں اور قیدیوں کو عدالتوں میں پیشی کے لیے لے جانے میں بھی متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیمپ جیل میں قید 3 ہزار 500 قیدیوں کے لیے صرف 1 ڈیوٹی ڈاکٹر کی سہولت موجود ہے اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ کیمپ جیل لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ کے علاوہ نیب کی زیر تفتیش مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق اور دیگر موجود ہیں۔

جیل حکام نے کہا کہ پیشی پر بھیجے گئے قیدی بخشی خانوں میں ملاقاتوں اور دیگر انتظامات پر شدید خدشات ہیں۔

قیدیوں کی پیشی کے حوالے سے تجویز دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی سے محکمے کے وسائل کی بچت ہوگی اور دیگر مسائل سے بھی نجات ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے 57 فیصد زائد

نیب لاہور سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جیل حکام نے سروس اسٹرکچر، نفری کی کمی اور ڈیوٹی کے طویل اوقات جیسے مسائل سے بھی آگاہ کیا تاہم ڈی جی نیب نے تمام مسائل حکام بالا تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔

ڈی جی نیب لاہور کا کہنا تھا کہ ہم نے ملزمان کو بہتر سہولیات فراہم کیں جبکہ حتی الامکان کوشش ہے کہ مزید اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے سیل محکمہ جیل خانہ جات کے لیے رول ماڈل ہیں، قیدیوں میں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے تفریق اور ان کے لیے الگ الگ جیل ہونی چاہیے۔

ڈی جی نیب کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم کے ملزمان کے ساتھ کسی قسم کا ناروا سلوک نہ برتا جائے۔

انہوں نے کہا کہ نیب، چیف سیکریٹری پنجاب کو نئی جیل کی جلد از جلد تعمیر اور جیل مینول میں اصلاحات کے لیے سفارشات بھیجے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی اہل خانہ سے ہونے والی ملاقاتوں کے دوران خواتین اسٹاف کی موجودگی کو ممکن بنایا جائے اور قیدیوں کی عزت نفس کا بھرپور خیال رکھا جانا ان کا حق ہے اور اس پر زور دیا جائے۔

قیدیوں کو صحت کے حوالے سے مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیب لاہور کی طرح تمام جیلوں میں بھی ایمرجنسی کے لیے ریسکیو 1122 کی سہولت 24 گھنٹے حاصل ہو جانی چاہیے۔

نیب کے بیان کے مطابق نیب اور جیل حکام کے مابین رابطے کو مزید مستحکم بنانے کے لیے فوکل پرسنز متعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024