• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

بیوروکریسی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

شائع November 19, 2019

ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بیوروکریسی مختلف احتسابی عوامل کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے میں ہچکچاتی ہے، اور اس تاثر کی تصدیق ایک مستند تحقیق نے کی ہے، جس میں انتظامیہ میں جلد سے جلد تبدیلیاں لانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

Bureaucratic Decision-Making Amid Multiple Accountability کے عنوان کے ساتھ اس تحقیق کو شاہد رحیم شیخ اور سیف اللہ خالد نامی سینئر انتظام کاروں نے لاہور کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی آف نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کے لیے انجام دی ہے اور اسے این آئی پی پی کے پالیسی پیپر کے طور پر جاری کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق 17ویں سے 22ویں گریڈ میں شامل 721 سول سرونٹس میں سے 610 افسران کے جوابات پر مبنی ہے۔

حیران کن طور پر وفاقی حکومت کے عہدوں پر فائز 5 لاکھ 81 ہزار 240 سول سرونٹس میں سے 95.02 فیصد گریڈ ایک سے 16 میں شامل ہیں، جبکہ صرف 4.98 فیصد سول سرونٹس 17 سے 22ویں گریڈ میں ہیں، جو اہم فیصلہ سازی کی سطح کے عہدوں پر فائز ہیں۔

پھر تحقیق میں شامل ان 17 سے 22ویں گریڈ کے افسران میں بھی مزید تقسیم موجود ہے۔ جیسے 49.1 فیصد افسران 17 اور 18 گریڈ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ 49.3 فیصد 19 اور 20 گریڈ میں موجود ہیں۔ ان میں سے 13.5 فیصد 3 سے 5 سالہ سروس کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ 21.9 فیصد 13 سے 17 سال سے سروس میں ہیں اور سب سے زیادہ (61.5 فیصد) وہ سول سرونٹس شامل ہیں جن کی ملازمت کو 17 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

تحقیقی جائزے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ وہ بیوروکریسی میں فرائض کی انجام دہی میں موجودہ ہچکچاہٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اس ہچکچاہٹ کی وجہ سے بننے والے 4 عناصر کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ سول سرونٹس کے جوابات گہری سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔

اگرچہ سول سرونٹس کی اکثریت کا ماننا ہے کہ وہ محنتی ہیں اور پچیدہ مسائل حل کرنا بھی جانتے ہیں، تاہم کام میں ان کی ہچکچاہٹ کے بارے میں عوامی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ

  • بیوروکریسی فیصلے نہیں لے رہی ہے،
  • بیوروکریسی ذمہ داری سے کترا رہی ہے
  • عوام کو بیوروکریسی تک رسائی حاصل نہیں ہے،
  • بیوروکریسی میں مسئلے کو حل کرنے کا رجحان نہیں پایا جاتا اور
  • بیوروکریسی عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے۔

جہاں تک نیب کے کردار کا تعلق ہے تو سول سرونٹس کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ

  • نیب بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہے،
  • نیب افسران میں ٹھوس پیشہ ورانہ تجربے یا تکنیکی اہلیت کی کمی پائی جاتی ہے،
  • مختلف احتسابی اداروں کے درمیان واضح طور پر متعین حدود دکھائی نہیں دیتیں،
  • حکومت جن سول سرونٹس کو سیاسی مخالفین کے قریب تصور کرتی ہے ان کے خلاف نیب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے،
  • سول سرونٹس کے لیے عام طور پر کافی توہین اور ذلت آمیز احتسابی عمل پایا جاتا ہے اور
  • نیب سول سرونٹس کے خلاف میڈیا میں خبریں لیک کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔

سول سرونٹس سے جب عدلیہ کے کردار اور مفاد عامہ سے متعلق تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو اکثر کا کہنا تھا کہ

  • عدالتی نظرثانی کا مقصد مفاد عامہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے،
  • انتظامی معاملات میں عدلیہ کی دخل اندازی معقول عمل نہیں ہے،
  • کثرت سے سوموٹو ایکشن کا استعمال انتظامی فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر نہیں بناتا،
  • سرکاری ملازمین عدالتی احتساب کے ڈر سے فیصلوں میں تاخیر کر رہے ہیں اور
  • پیشیوں کے دوران اعلیٰ عدلیہ بیوروکریسی کی تذلیل کرتی ہے۔

جب میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالنے کو کہا گیا تو زیادہ تر سول سرونٹس نے کہا کہ

  • مین اسٹریم میڈیا انتظامی فیصلوں کو درست طریقے سے رپورٹ نہیں کرتا،
  • میڈیا سنسنی خیزی سے اجتناب نہیں کرتا، اور
  • عام طور پر خیال یہی ہے کہ میڈیا رپورٹرز انتظامی عوامل کے بارے میں مناسب علم ہی نہیں رکھتے۔

جب ان سے سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں پوچھا گیا تو ان میں سے اکثریت کی رائے کچھ یوں تھی کہ

  • سیاستدانوں اور سول سرونٹس کا گٹھ جوڑ وجود رکھتا ہے،
  • اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے ترقیاتی کام تعطل کا شکار ہوتے ہیں، اور
  • اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے مالی کرپشن کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

سول سرونٹس سے اس تحقیق میں داخلی ضابطوں اور نظم و ضبط کے طریقہ کار یعنی Civil Servants Conduct Rules (1964) اور Efficiency and Disciplinary Rules (1973) کے بارے میں بھی ان کی رائے لی گئی۔

جائزے میں شامل سول سرونٹس کی ایک بڑی تعداد (70 فیصد) یہ دعوٰی کرتی ہے کہ انہیں Conduct Rules of 1964 سے آگاہی ہے اور 55 فیصد سول سرونٹس کے مطابق ان اصولوں کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی روکنے کے لیے وضح کیا گیا ہے۔ تاہم جائزے میں شامل 42 فیصد سول سرونٹس سمجھتے ہیں ان اصولوں کو شاذو نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے اور 37 فیصد کے نزدیک یہ اصول بیوروکریسی کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے باز رکھنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔

82 فیصد سول سرونٹس نے بتایا کہ وہ Efficiency and Disciplinary Rules کی آگاہی رکھتے ہیں، قریب 63 فیصد سول سرونٹس کے نزدیک ان اصولوں کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی روکنے کے لیے وضح کیا گیا ہے تاہم محض 44 فیصد ہی اسے کرپشن کی روک تھام میں مددگار قرار دیتے ہیں۔

حل کیا ہے؟

تحقیق میں بیوروکریسی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں۔

  • فیصلہ سازی سے متعلق چیلنجز کو تسلیم کیا جائے۔
  • بیوروکریسی کی قیادت اور نیب کے درمیان حریفانہ کشمش کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے دونوں کے درمیان پائیدار اور باہمی احترام کے حامل مذاکرات کی ضرورت ہے۔
  • عدالتی نگرانی لازمی ہے لیکن سول سرونٹس کی ذاتی حیثیت میں تذلیل نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی اس سے فیصلہ سازی کا ماحول بہتر بنانے میں کوئی مدد حاصل ہوتی ہے۔
  • ماتحت افسران کی میڈیا میں غلط عکاسی کو روکنے کے لیے بیوروکریسی کی قیادت کے پاس باضابطہ رہنما اصول دستیاب ہونے چاہئیں۔
  • بیوروکریسی میں موجود فیصلہ سازوں کو سیاسی ’بڑوں‘ کے ناجائز اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کے لیے کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں۔
  • فیصلہ سازی کے عمل میں تعطل کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔
  • ان نکات میں ایک یہ نکتہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ داخلی ضابطہ اخلاق اور نظم و ضبط کے طریقہ کار کو سختی کے ساتھ نافذ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
  • سول سرونٹس کو لاحق خوف کے پیچھے دیگر محرکات جیسے احد چیمہ اور فواد حسن کی گرفتاری، بریگیڈئیر اسد منیر کی خودکشی اور سول سرونٹس کے خلاف متعدد کیسز شامل ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ چونکہ (نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے) متعدد افسران کو ہراساں کیا جا رہا ہے اس لیے بیوروکریسی موجودہ احتسابی مہم کے باعث خوف کا شکار ہے۔ (نیب چیئرمین نے اس تاثر کو غلط قرار دیا)، لیکن ایوب، یحییٰ، بھٹو اور ضیاالحق حکومتوں کی جانب سے بیوروکریسی کو پاک صاف کرنے کے لیے جو کوششیں کی گئیں تھیں، انہیں بیورکریسی اب تک بھولی نہیں ہے۔

چونکہ اس تحقیق میں اچھا لٹریچر ریویو اور فیصلہ سازی کے عمل پر سودمند مباحثہ شامل ہے اس لیے سول سرونٹس، پبلک ایڈمنسٹریشن کے طلبا اور تبصرہ نگار اس تحقیق سے معقول فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

اس پالیسی مقالے میں ہچکچاہٹ کے پیچھے چھپی ایک اہم وجہ کا تذکرہ نہیں ملتا، وہ ہے گرتے ہوئے تعلیمی معیارات اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی رپورٹس کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے سول سروسز کو دستیاب ٹیلنٹ کے معیار میں گراوٹ۔ شاید اب سول بیوروکریسی کی رِٹ کی کمزوری کے حوالے سے سروے کروانے کی بھی ضرورت ہے۔

داخلی عناصر کی گنجائش نکالنے کے باوجود بھی یہ تحقیق بیوروکریسی کے خوف کو ختم کرنے کے لیے ایک مضبوط کیس پیش کرتی ہے کیونکہ انتظامی جمود قلیل عرصے کے اندر ہی پورا نظام دھرم برم کردیتا ہے۔

مفاد عامہ سے متعلق بیوروکریسی کی بے حسی پر شہری بھلے ہی شکایات کرتے ہوں لیکن ایک مؤثر بیوروکریسی اور ایماندار افسران کے تحفظ کی گارنٹی کے بغیر ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے ایماندار افسران جو بالخصوص اپنے سیاسی باسز کو درست مشورہ دے سکتے ہوں۔


یہ مضمون 31 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024