• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عدالتیں 50 سال قبل ایسا فیصلہ دیتیں تو مارشل لا لگتے نہ ملک ٹوٹتا، احسن اقبال

شائع December 17, 2019 اپ ڈیٹ December 20, 2019
حالیہ حکومت کیس کو روکنے کی کوشش کرتی رہی، احسن اقبال—فائل فوٹو: فیس بک
حالیہ حکومت کیس کو روکنے کی کوشش کرتی رہی، احسن اقبال—فائل فوٹو: فیس بک

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے فیصلے کو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کاش ایسا فیصلہ 50 سال پہلے آتا تو ملک بہت ساری مارشل لا سے بچ جاتا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ انہیں امید ہےکہ اس فیصلے کے بعد ملک میں آئین کی بالادستی کو دوام حاصل ہوگا اور آئین شکنی سے پرہیز کیا جائے گا تاکہ یہ ملک مستحکم جمہوری و آئین و قانون کی شاہراہ پر چلے، ملک معاشی طور پر مضبوط ہو، یہاں جمہوری طور پر استحکام آئے اور ماضی میں جو اس ملک میں اس طرح کے کھیل چلتے رہے ہم ان سے نجات حاصل کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو ملک کی آئینی، قانونی اور جمہوری تاریخ کا سنہری فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اسے سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

اسی کیس میں پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے اس وقت کے دیگر حکومتی وزرا کے خلاف بھی غداری کیس چلائے جانے کے پوچھے گئے سوال پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی نقطہ ہے اور یہی سوال پرویز مشرف کیس کی سماعت کے دوران بھی بحث میں آیا تھا اور اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ آرمی چیف اپنے حکم کے ساتھ معاملات کرتا ہے اس لیے اگر وہ کوئی غیر آئینی کا کام کرے گا یا آئین شکنی کرے گا تو اس کی ذمہ داری براہ راست اسی پر عائد ہوتی ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتے کے لیے تیار رہنا چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو ایک مضبوط بنیاد اور مثال کے طور پر لینا چاہیے تاکہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہو اور پاکستان دنیا میں آئین کا احترام کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو۔

احسن اقبال نے چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہے کتنے بھی بڑے ہوں لیکن آئین آپ سے بھی بڑا ہے‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس وقت پرویز مشرف کی ’بی ٹیم‘ ہے اور جو لوگ ماضی میں مشرف کے ساتھ تھے وہ اس وقت کی حکومتی کابینہ میں شامل ہیں اور خود عمران خان پرویز مشرف کو آئیڈیل قرار دیتے رہے ہیں جب کہ حکومت نے پوری کوشش کی کہ اس مقدمے کی کارروائی کو روکا جائے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ عدالت اپنا فیصلہ نہ سنا سکیں لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے پاس سزا کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیلئے 30 دن کا اختیار ہے، وکلا

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عدالت نے آئین و قانون کا بالادستی کا فیصلہ سنایا جس کے لیے عدالت مبارک باد کی مستحق ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کی جانب سے دیے گئے اس فیصلے کی علامتی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اور اسی کے تحت اس کیس کو آگے بڑھایا جائے گا اور ساری چیزیں آئین و قانون کے مطابق ہوں گی۔

احسن اقبال نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف خود کو طاقتور کہتے اور سمجھتے تھے اور ہمیشہ عدالتوں سے فراریت کی راہ اپنائی جب کہ منتخب وزیر اعظم (نواز شریف) نے ہر سطح پر خود کو قانون کے سامنے پیش کیا اور کینسر میں مبتلا اپنی اہلیہ کو لندن میں چھوڑ کر عدالتی پیشی کےلیے حاضر ہوئے۔

آئین شکنی،عوام کے حق حکمرانی کو روندنے کا راستہ بند ہوگیا،مریم اورنگزیب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'عدالتی فیصلے نے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس سے آئندہ ملک میں آئین شکنی، پارلیمان اور عوام کے حق حکمرانی کو روندنے کا راستہ بند ہوگیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'پہلی مرتبہ کسی آمر کے خلاف عدالت نے فیصلہ دے کر پاکستان کو ایک نئی سمت دی ہے، فیصلہ پاکستان کے آئین کی بالادستی، جمہوریت کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کا باعث بنے گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'عدالت نے شہادتوں اور قانونی تقاضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور اہم فیصلہ ہے، آرٹیکل 6 کے تناظر میں عدالت نے ایک نئی عدالتی نظیر قائم کی ہے اور سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلوں کے تناظر میں عدالت نے قانونی فیصلہ کیا ہے۔'

مریم اورنگزیب نے کہا کہ 'فیصلے نے پاکستان کے مستقبل کی واضح سمت کا بھی تعین کر دیا ہے، فیصلہ آئین کی بالادستی، مقننہ، عدلیہ اور ریاستی اداروں کے آئینی کردار کے بارے میں نہایت اہم ہے، فیصلہ ملک میں عوام کی حقیقی رائے سے منتخب وزرائے اعظم، حکومتوں، پارلیمان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے بھی سنگ میل ثابت ہوگا جبکہ اس فیصلے کے بعد ملک میں آئین کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا نیا دور شروع ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024