• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

امریکا-ایران تنازع: جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے پہلے اور بعد کے واقعات

جنرل قاسم سلیمانی امریکی حملے میں ہلاک ہوئے جس کے جواب میں ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل فائر کیے۔
شائع January 8, 2020 اپ ڈیٹ January 21, 2020

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی 1950 کی دہائی کے آغاز سے پائی جاتی ہے لیکن دونوں ممالک اس وقت جنگ کے دہانے پر موجود ہیں جس کے مشرق وسطیٰ میں طویل المدتی جغرافیائی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں امریکا اور ایران کشیدگی کے نتیجے میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق اہم واقعات کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہے:

27 دسمبر 2019: عراق میں امریکی دفاعی کانٹریکٹر قتل

عراق کے دارالحکومت بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر راکٹ حملے میں ایک امریکی دفاعی کانٹریکٹر ہلاک جبکہ کم از کم 4 امریکی فوجی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

امریکی محکمہ دفاع نے باضابطہ طور پر کسی کو حملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا لیکن امریکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ عہدیداران نے کہا تھا کہ حملہ ایرانی ملیشیا تنظیم کتائب حزب اللہ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

تاہم کتائب حزب اللہ نے حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

29 دسمبر 2019: امریکی فضائی حملے میں کتائب حزب اللہ کے 25 اراکین ہلاک

امریکا نے کتائب حزب اللہ کے 5 ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے جس میں سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے اور اسے امریکی فوجی اڈے پر حملے کی جوابی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔

پینٹاگون نے کہا تھا کہ انہوں نے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے 3 اور شام میں 2 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جہاں اسلحہ ذخیرہ کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق عراق کی حکومت نے حملے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

30 دسمبر 2019: عراق کے وزیراعظم کا غم و غصے کا اظہار

عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کابینہ ارکان کو بتایا تھا کہ انہوں نے امریکی آپریشن روکنے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی حکام کی جانب سے حملے کے لیے اصرار کیا گیا تھا۔

31 دسمبر 2020: مظاہرین کا بغداد میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا

امریکی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے عراقی ملیشیا کے اہلکاروں کی نمازِ جنازہ کے بعد مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں دھاوا بول دیا تھا جو مرکزی دروازہ توڑ کر عمارت کے اندر داخل ہوئے تھے جبکہ ریسیپشن ایریا کو آگ بھی لگائی گئی تھی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

مظاہرین نے امریکی سفارت خانہ بند کرنے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کے مطالبات پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارت خانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے تھے۔

تاہم واقعے میں کوئی امریکی اہلکار ہلاک نہیں ہوا تھا جبکہ امریکی عہدیداران نے بڑے پیمانے پر مذکورہ واقعے کی مذمت کی تھی اور امریکی صدر نے ٹوئٹر پر سفارت خانے میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایران، بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، ان کو مکمل ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اہم امید کرتے ہیں کہ سفارتخانے کی حفاظت کے لیے عراق طاقت کا استعمال کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

2 جنوری 2020: ایران کے حامی مظاہرین نے امریکی سفارتخانہ چھوڑ دیا

حشاد الشعبی کی پیرا ملٹری فورس کے حکم کے بعد ایران کے حامی مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کا قبضہ چھوڑ دیا تھا۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

امریکی فضائی حملے میں حشاد الشعبی کے 25 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ہزاروں عراقی مظاہرین نے سفارت خانے کے کمپاؤنڈ کا گھیراؤ کیا تھا اور توڑ پھوڑ کی تھی۔

3 جنوری 2020: امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی ہلاک

—فوٹو: اے پی
—فوٹو: اے پی

عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’قاسم سلیمانی عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں متحرک تھے‘۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’صدر کی ہدایات پر امریکی فوج نے قاسم سلیمانی کو ہلاک کرکے بیرونِ ملک موجود امریکیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں کہا تھا کہ قاسم سلیمانی سے 'بہت سال پہلے ہی نمٹ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کو مارنے کی سازش کر رہے تھے لیکن وہ پکڑے گئے'۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ 'ایران نے کبھی جنگ نہیں جیتی لیکن کبھی بھی مذاکرات سے محروم نہیں ہوا'۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا تھا اور ملک میں تین روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کا مقصد ایک 'انتہائی حملے' کو روکنا تھا جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو خطرہ لاحق تھا۔

مائیک پومپیو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں بتایا کہ انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، افغانستان کے صدر اشرف غنی، فرانس کے وزیر خارجہ جان ایو لودریان اور جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس سے عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے متعلق ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مائیک پومپیو سے ٹیلیفونک گفتگو میں تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا تھا۔

علاوہ ازیں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کشیدگی پر ’سنگین تشویش‘ کا اظہار اور تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

4 جنوری 2020: امریکی فوجی اڈے کے قریب راکٹ حملہ

عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک اڈے پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھیں۔

امریکی صدر نے ایران کے 52 ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایران جارحانہ انداز میں امریکی اہداف کو بدلے کی صورت میں نشانہ بنانے کی بات کر رہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران ایسے شخص کے بدلے کی بات کر رہا ہے جس نے ایک امریکی کا قتل کیا اور کئی دیگر کو زخمی کیا تھا اور اس نے اپنی زندگی میں کئی افراد کا قتل کیا جن میں حال ہی میں کئی ایرانی مظاہرین بھی شامل ہیں'۔

ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'قاسم سلیمانی ہمارے سفارتخانے پر بھی حملے کر رہا تھا اور دیگر مقامات پر حملوں کی بھی تیاری کر رہا تھا، ایران کئی سالوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اسے ایک دھمکی سمجھا جائے کہ اگر ایران نے امریکیوں یا امریکی اثاثوں پر حملہ کیا تو ہم 52 ایرانی اہداف کو نشانہ بنائیں گے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ 52 اہداف میں سے چند ایران اور ایرانی ثقافت کے لیے نہایت اہم اور اعلیٰ سطح کے ہیں اور ان اہداف سے ایران کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، امریکا مزید دھمکیاں نہیں دنیا چاہتا'۔

5 جنوری 2020: پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا

عراق سے قاسم سلیمانی کا جسدِخاکی ایران کے شہر احواز پہنچایا گیا تھا، ان کے جسد خاکی کے ساتھ سیاہ لباس میں ملبوس ہزاروں سوگواروں نے سڑکوں پر مارچ بھی کیا تھا۔

—فوٹو: اے پی
—فوٹو: اے پی

اسی روز ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہر وہ کام کریں گے جو خطے کو امن کی جانب لے کر جائے‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ ’پاکستان کسی کا یا کسی چیز کا فریق نہیں بنے گا لیکن صرف امن کا شراکت دار بنے گا‘۔

6 جنوری 2020: سپریم لیڈر کی امامت میں قاسم سلیمانی کی نمازِ جنازہ ادا

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی امامت میں قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔

قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں قدس فورس کے نئے سربراہ اسمٰعیل قاآنی، ایران کے صدر حسن روحانی اور دیگر اعلیٰ قیادت نے شرکت کی تھی۔

6 جنوری کو سینیٹ میں حالیہ امریکا-ایران کشیدگی سے وزیر خارجہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پاکستان کی سرزمین کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور ہم خطے کے اس تنازع میں فریق نہیں بنیں گے’۔

7 جنوری 2020: امریکا کا ایرانی وزیر خارجہ کو ویزا دینے سے انکار

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ امریکا نے ایران کے اہم کمانڈر کی ہلاکت کے بعد کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔

تہران میں گفتگو کرتے ہوئے جواد ظریف نے کہا تھا کہ انہیں خوف ہے کہ کوئی امریکا آئے گا اور حقائق کا انکشاف کرے گا۔

اسی روز پینٹاگون نے عالمی پابندیوں کے باوجود ایران کے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا۔

8 جنوری 2020: ایران کے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

ایران نے القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل داغے تھے۔

تہران نے مقامی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے عراق میں 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں امریکی اور اتحادی افواج کے اہلکار موجود تھے جبکہ مذکورہ حملے میں ایران نے اپنی سرزمین سے ایک درجن سے زائد میزائل فائر کیے تھے۔

میزائل حملوں کے بعد سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی عوام کو تسلی دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب تک ’سب ٹھیک ہے‘ ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین اور طاقتور فوج ہے۔

بعدازاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکی حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف ایران کا ردِعمل امریکا کے منہ پر تھپڑ ہے۔

دوسری جانب عراقی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ میزائل حملوں میں 2 اڈوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن اس میں کوئی عراقی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

بیان کے مطابق رات ایک بج کر 45 منٹ سے 2 بج کر 15 منٹ کے دوران عراق میں 22 میزائل داغے گئے جس میں سے 17 میزائلوں نے عین الاسد بیس جبکہ 5 نے اربیل شہر میں فوجی اڈے کا نشانہ بنایا۔