• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

بلوچستان کے پامال ہوتے حقوق: یہ 8 دہائیوں کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں

شائع February 8, 2020
آئی اے رحمٰن
آئی اے رحمٰن

اگر آپ بلوچستان کی سیاسی مشقتوں اور وہاں کے تکلیف زدہ لوگوں کی خواہشات اور محرومیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو 87 برس قبل بلوچستان کے لوگوں میں آنے والی سیاسی بیداری اور ان کی پہلی وسیع البنیاد سیاسی جماعت ’بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘ کے تشکیلی عمل کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری گزشتہ کئی برسوں سے بلوچ و بلوچستان کی تاریخ کو مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں اس تاریخ کی چوتھی جلد شائع کی گئی ہے جس میں مذکورہ سیاسی جماعت کی تاریخ کو سمیٹا گیا ہے۔

مصنف کے مطابق 1917ء میں بلوچستان میں ایسے وقت میں سیاسی بیداری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے جب کئی بلوچ ترکمنستان میں بسماچی کے خلاف آپریشن میں سرخ فوج کو مدد فراہم کر رہے تھے جبکہ چند دیگر نے ’باکو انٹرنیشنل کانفرنس آف ایسٹرن پیپلز‘ ّ(Baku International Conference of Eastern Peoples) میں شرکت کی تھی۔

مصنف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے طویل عرصے تک جنرل سیکریٹری رہنے والے پی سی جوشی پر عبور رکھنے والے عبدالقادر نظامانی کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برِصغیر کے پہلے کمیونسٹوں میں بلوچوں کی ایک کثیر تعداد شامل تھی اور انہی میں سے ایک تارا چند بھی تھے جو غیر مسلم تھے۔

1920ء میں عبدالعزیز کرد نے ینگ بلوچ کے نام سے پہلا بلوچ سیاسی گروہ تشکیل دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس گروہ کا نام تبدیل کرکے انجمن اتحاد بلوچاں رکھ دیا گیا۔

شاہ محمد مری کے مطابق یہ گروہ سیاسی دھڑا، تاجر اتحاد اور ادبی انجمن کا ملغوبہ سا تھا۔ یہ ایک زیرِ زمین کام کرنے والی جماعت تھی اور اس کے چند ارکان دیر رات تک جاری رہنے والی ملاقاتوں میں شرکت کے لیے رات کی تاریکی میں میلوں کا سفر طے کیا کرتے تھے۔ جب اس جماعت نے منظرِعام پر آنے کا فیصلہ کیا تو شاعر، افسانہ نگار، جوش و جذبے سے بھرپور شخصیت کے مالک اور تاریخِ بلوچستان کے ایک کرشماتی کردار یوسف عزیز مگسی کو صدر منتخب کیا گیا۔

1931ء میں منعقدہ پارٹی کے پہلے کُھلے اجلاس میں مندرجہ ذیل مقاصد اختیار کیے گئے:

  • سرداری نظام کا خاتمہ
  • کئی ٹکڑوں میں بٹے بلوچستان کی وحدت اور آئینی و جمہوری نظامِ حکومت کی بحالی
  • بلوچستان میں تعلیمی سہولیات میں اضافہ
  • استحصالی خیالات سے پاک اسلامی معاشرے کا قیام

جب یوسف مگسی کی ملاقات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم محمد امین کھوسہ سے ہوئی تو ان کی گفتگو کے نتیجے میں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے نامور بلوچوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے خیال نے جنم لیا۔ یوسف مگسی اور ان کے ساتھیوں کی انتھک کوششوں کی نتیجے میں 1932ء میں جیکب آباد میں 28 تا 30 دسمبر آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔

اس کانفرنس کے پہلے دن مندرجہ ذیل قراردادوں کو منظور کیا گیا۔

  • کانفرنس کا نام بدل کر بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس رکھا گیا۔
  • سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا خیرمقدم کیا گیا۔
  • سیاہ کاری کی رسم جس کے تحت مجرم کو اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ متاثرہ خاندان کو دینے پر مجبور کیا جاتا تھا اس کی مذمت کی گئی اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
  • عصمت فروشی کے اڈوں کی بندش پر زور دیا گیا۔ کانفرنس نے لب اور ولوار کی رسم کے خاتمے اور حکام سے تعلیمِ نسواں کے کاز کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا۔
  • حکام سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ متوفی شخص کے اہل خانہ میں شامل بیواؤں/دیگر خواتین کو ’گھر کے برتنوں کی طرح‘ متوفی شخص کے ورثا کے حوالے کرنے کی روایت پر پابندی عائد کی جائے، اور خواتین کے شرعی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔

(مصنف اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ ایک دن میں اختیار کردہ 9 قراردادوں میں سے 5 قراردادیں حقوقِ نسواں کے بارے میں تھیں۔)

بعدازاں مندرجہ ذیل قراردادوں کو بھی منظور کیا گیا:

  • مکران کے کسانوں کو بیراجی زمین الاٹ کی جائے۔
  • عدالتی مقدمات کی تاخیر سے تکمیل کی شکایت دُور کی جائے۔
  • بالائی سندھ میں لاگو کردہ فرنٹیئر ریگولیشن کا خاتمہ کیا جائے۔
  • آئینی حکومت کے تحت گورنر کے زیرِ انتظام بلوچستان صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے۔
  • تعلیم کے فروغ کے لیے 8 نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کیا جائے
  • آزادانہ انتخابات کے ذریعے کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان کو چنا جائے

کانفرنس کے سلسلے میں پہلا قدم بھلے ہی بلوچ رہنماؤں نے اٹھایا تھا لیکن وہ دیگر تمام لسانی برادریوں کو اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرنے کے خواہاں تھے۔ یہ سیاسی جماعت عبدالصمد اچکزئی کی شخصیت کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی تھی۔ جس وقت عبدالعزیز کرد نے اپنا زیرِ زمین گروہ تشکیل دیا تھا اس وقت عبدالصمد اچکزئی اپنی سیاسی جدوجہد کے باعث پہلے ہی جیل میں قید تھے۔

کانفرنس نے ’بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘ کے نام کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

بلوچستان، سندھ، پنجاب، اتر پردیش اور دہلی کے مختلف اضلاع اور قلات، خیرپور اور بہاولپور ریاستوں کے نمائندہ ارکان پر مشتمل پارٹی کا ایگزیکٹو بورڈ تشکیل دیا گیا۔ عبدالصمد اچکزئی کو پارٹی کا نائب صدر مقرر کیا گیا (جبکہ نواب خیرپور کو صدر بنایا گیا)۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں پارٹی کی آئین ساز ذیلی کمیٹی کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی سمیت دیگر کمیٹیوں میں نامزد پختونوں میں نواب محمد خان جوگزئی اور سردار غلام محمد ترین بھی شامل تھے۔

جیکب آباد میں منعقدہ کانفرنس کے بعد جب یوسف عزیز مگسی قبیلے کے سردار بنے تو انہوں نے اپنے علاقے میں کانفرنس کی پیش کردہ تجاویز میں سے چند ایک کو متعارف کروا دیا۔

پارٹی کی دوسری سالانہ کانفرنس 1933ء میں 26 تا 28 دسمبر حیدرآباد میں منعقد ہوئی۔ قلات کے پولیٹیکل ایجنٹ نے یوسف عزیز کو کانفرنس میں شرکت کرنے سے منع کیا مگر انہوں نے اس حکم کو نظر انداز کردیا۔

اس کانفرنس میں اختیار کردہ قراردادوں میں سے ایک عبدالصمد اچکزئی نے پیش کی جس میں بلوچستان میں آئینی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا جبکہ دوسری قرارداد میں خواتین کو ان کے جائز وراثتی حصے سے محروم رکھنے والے سرداری نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبدالصمد اچکزئی کے زیرِ دستخط آئینی اصلاحات کا مسودہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا گیا۔

پھر بلوچستان اور قلات کے حکام نے پارٹی کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔ عبدالعزیز کرد کو 5 برس کے لیے جیل میں بند کردیا گیا جبکہ عبدالصمد اچکزئی کو مچھ جیل میں قید کیا گیا اور یوسف مگسی کو جبری طور پر انگلینڈ جلاوطن کردیا گیا۔ جس کے بعد کانفرنس غیر فعال ہوکر رہ گئی۔ یوسف مگسی مئی 1935ء میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے، اس وقت ان کی عمر صرف 27 برس تھی۔

گزشتہ 8 دہائیوں سے مسلسل بلوچستان کے عوامی مفادات کی مخالف دغاباز اور بیرونی قوتیں 1932ء کے لائحہ عمل کا گلا گھونٹنے میں مصروف رہی ہیں لیکن عبدالصمد اچکزئی، یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، ایم امین کھوسہ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کے باعث یہ لائحہ عمل آج بھی زندہ ہے۔

بلوچستان میں جمہوری و آئینی نظام کے قیام، سرداری نظام کے خاتمے اور 1930ء کی دہائی میں حقوقِ نسواں کا مطالبہ کرنے والے سیاستدان عوامی ہیروز کہلانے اور دھرتی کے عظیم کرداروں میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنا خواب زندہ رکھنے کی خاطر ہر طرح کی بدنامی کو قبول کرنے والے لوگ سلام کے مستحق ہیں۔


یہ مضمون 6 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024