سپریم کورٹ نے امل کیس نمٹادیا، اہلخانہ کو معاوضہ دینے کا حکم
کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی امل عمر سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو بچی کے والدین کو 5 لاکھ اور امل ٹرسٹ کو 5 لاکھ معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹادیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے سندھ حکومت کو امل عمر کے والدین کو 5 لاکھ روپے اور امل ٹرسٹ کو 5 لاکھ روپے دینے کا حکم دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو معاوضے کی ادائیگی کے بعد رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: امل کیس:'سندھ ہیلتھ کمیشن کا غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو محکمے کو ختم کردیں گے'
دوران سماعت کمسن بچی امل عمر کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ 'عدالتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی'۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ 'جو بھی اس واقعے میں ملوث تھا ان سب کے خلاف کاروائی ہوگی'۔
جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'کراچی میں رینجرز اہلکاروں نے لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کیا، ان کو بھی بری کر دیا گیا تھا، غلطی پولیس والوں سے بھی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 'امل جیسے واقعات سن کر ہمارا دل پھٹ جاتا ہے، پولیس نے مارنا کسی کو ہوتا ہے جبکہ مار کسی اور کو دیتے ہیں، ایک سپاہی کے پاس تو بڑی بندوق ہونی ہی نہیں چاہیے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سپاہی کے پاس صرف 9 ایم ایم پستول ہونی چاہیے، پولیس میں سپاہی کا کوئی کام نہیں ہوتا، صرف افسران ہی پولیس کی عزت کروا سکتے ہیں، کانسٹیبل نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'کانسٹیبل صرف حکم مانتا اور اپنے کام نکالتا ہے، محکمہ بدنام ہونے پر کانسٹیبل کو کوئی فکر نہیں ہوتی'۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت عظمیٰ کا ٹرائل کورٹ کو امل کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں کرنے کا حکم
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'کراچی میں دن دیہاڑے شہریوں کو لوٹ لیا جاتا ہے یہاں تک کہ بچوں سے ان کے اسکول کے بستے تک چھین لیے جاتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ '4 لوگ ایک نوجوان پر اسلحہ تان لیں تو وہ کیا کرے گا، اسٹریٹ کرائم میں کون ملوث ہے پولیس کو معلوم ہے'۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ 'ریاست کو اپنی رٹ قائم رکھنی چاہیے'۔
اس موقع پر ڈی آئی جی سندھ پولیس ذوالفقار مہر کا کہنا تھا کہ 'پولیس افسران کی تربیت کر رہے ہیں، آئی جی کلیم امام نے سارے معاملے کی تفتیش کی'۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'سنا ہے 20 ہزار مزید پولیس والے بھرتی ہورہے ہیں، کراچی میں سڑکوں پر عوام سے زیادہ تو پولیس ہوجائے گی پھر کیا ہوگا'، جس پر ڈی آئی جی سندھ نے کہا کہ 'صوبے بھر میں بھرتیاں کی جائیں گی'۔
دوران سماعت امل کی والدہ آبدیدہ بھی ہوئیں، عدالت نے سندھ حکومت کو حکم دیا کہ امل عمر کے والدین اور ٹرسٹ کو 5،5 لاکھ روپے امدادی رقم دی جائے اور واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں اور ہسپتالوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
امل کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ اگست 2018 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مبینہ مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔
بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔
امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا تھا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔
مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ نے بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امل کیس: مبینہ پولیس مقابلے کے بعد فرار ہونے والا ملزم گرفتار
اس واقعے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں‘۔
عدالت نے امل کیس کی تحقیقات کرنے کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے ٹرائل کورٹ کو کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے محکمہ پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ امل کے والدین کو کیا امداد دے گی اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔