• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

وزیراعظم بتائیں ان کی کون سی کرپشن کی وجہ سے مہنگائی ہوئی،بلاول بھٹو

شائع February 11, 2020
بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں حکومت پر شدید تنقید کی—فوٹو:ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں حکومت پر شدید تنقید کی—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومتی اقدامات کو عوام کا معاشی قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ مہنگائی گزشتہ ایک برس میں ہوئی ہے، وزیراعظم بتائیں کہ ان کی کون سی کرپشن کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی اور غربت مزید بڑھ گئی ہے اور ہر طبقہ پریشان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بےبس پارلیمنٹ میں مہنگائی پر بحث ہو رہی ہے، حکومت کی خالی نشستوں سے بحث کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے کہ وہ کتنی اہمیت دے رہے ہیں، انہوں نے تو اپنے سینئر وزرا کو بھی نہیں بھیجا، یہاں وزرائے مملکت، سائنس اور پوسٹ کا وزیر موجود ہے لیکن اصل وزیر نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امید ہے کہ ایک دن یہ پارلیمان اپنے وزیر خزانہ کو بھی دیکھے گا اور اس کو سنے گا اور سوال بھی پوچھے گا، یہ حکومت مانے یا نہ مانے سب کو نظر آرہا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے'۔

مزید پڑھیں:حکومت آئی ایم ایف پیکج پر نظرثانی کرے ورنہ ملک بھر میں احتجاج ہوگا، بلاول

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ‘جب یہ حکومت آئی تو مہنگائی اور بے روزگاری تھی لیکن اب بہت بڑھ گئی ہے یہ حقیقت ہے، حکومتی ادارے ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، شماریات بیورو کیا کہہ رہا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘شماریات بیورو جیسا حکومتی ادارہ کہہ رہا ہے کہ پچھلی دہائی میں مہنگائی اتنی تیزی سے نہیں بڑھی جتنی پچھلے ایک سال میں بڑھی، مہنگائی کی شرح 14 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ خوراک کی مہنگائی ایک اعشاریہ 6 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ جلد خراب ہونے والے غذائی اجناس میں مہنگائی 78 فیصد ہوگئی ہے، دال کی قیمتوں میں 83 فیصد، پیاز میں 125 فیصد، ٹماٹر 158 فیصد اور آلو 87 فیصد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اعداد و شمار میرے نہیں بلکہ حکومتی ادارے کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اہم بات یہ ہے کہ عام مہنگائی کا اثر دیہاتوں کے رہائشیوں پر زیادہ پڑا ہے، مہنگائی کا عام تناسب 14 فیصد ہے جبکہ مضافات کے لیے 16 فیصد ہے، اس سب کے باوجود گیس 55 فیصد، ایندھن 76 فیصد، بجلی کی قیمتوں میں 14 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے'۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہمیں اپنے حلقوں میں عوام کے پاس جانا ہے اور وہ ہم سے سوال کرتے ہیں، عوامی نمائندے اس معاشی قتل پر خاموش نہیں رہ سکتے، صرف اور صرف وہ لوگ جو عوامی نمائندے نہیں ہیں بلکہ کسی اور طریقے سے آئے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے اور عوام کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'ہمیں سب یاد ہے کہ جب عمران خان کہتے تھے کہ جب وزیراعظم کرپٹ ہوتا ہے تو مہنگائی بڑھتی ہے، جب آپ کی حکومت نااہل، نالائق، سلیکٹڈ ہوتا ہے اور عوام کے نمائندے نہیں ہوتے ہیں تو پھر عوام کا درد بھی محسوس نہیں ہوتا، آئی ایم ایف کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اپنے غریب عوام کے معاشی حقوق کی سودے بازی کرتے ہیں پھر مہنگائی بڑھتی ہے جیسے آج بڑھی ہے'۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'وزیراعظم کو بتانا چاہیے کہ ان کی کون سی کرپشن کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے یا ہماری بات مان لیں کہ وہ نااہل ہیں، نالائق ہیں اور سلیکٹڈ ہیں، جو بھی ہیں گھر جانا پڑے گا اور عوام کو ریلیف دینا پڑے گا'۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول بھٹو کا حکومت پر سیاسی مخالفین کی زندگیوں سے کھیلنے کا الزام

انہوں نے کہا کہ 'ہمارا وزیراعظم کہتا تھا کہ وہ قرض نہیں لیں گے قرض لینے سے پہلے وہ خودکشی کریں گے اور اب پاکستان کا اپنا اسٹیٹ بینک، عمران خان کا اپنا اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ حکومت نے پچھلے 15 مہینوں میں11 ہزار ارب روپے کا قرض لیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ حکومت ہمیشہ ماضی کی بات کرتی ہے، پچھلے 61 سال، 1947 سے 2008 تک 6 ہزار ارب قرض لیا گیا تھا اور پچھلے 15 مہینوں میں 11 ہزار ارب قرض لیا گیا، پی پی پی نے 2008 سے 2013 تک اندازاً ہر دن 5 ارب اور مسلم لیگ (ن) کے 2013 سے 2018 کے دور میں اندازاً ہر روز 8 ارب روپے کا قرض لیا تھا لیکن اب پچھلے مہینوں میں پی ٹی آئی حکومت کے دوران ہر دن 25 ارب روپے کا قرض لے رہے ہیں'۔

حکومتی قرض کے اعداد و شمار کا حوالے سے انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ اپوزیشن کے نہیں بلکہ حکومت کے اپنے اداروں کے اعداد و شمار ہیں، عمران خان نے تو کہا تھا کہ وہ خود کشی کریں گے لیکن ہمار مطالبہ خود کشی نہیں بلکہ مان لو کہ آپ غلط تھے اور عوام کو ریلیف دو ورنہ گھر جانا پڑے گا'۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'عمران خان کہتا تھا کہ پاکستان کے عوام ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کہ ہمارا وزیراعظم ایمان دار نہیں ہے اور جب ایمان دار عمران خان وزیراعظم بنے گا تو عوام ٹیکس دینا شروع کریں گے اور اب حکومت کا اپنا ادارہ ایف بی آر کہہ رہا ہے کہ حکومت ٹیکس کا اپنا ہدف بھی حاصل نہیں کر پارہی ہے اور گزشتہ 7 مہینوں میں 400 ارب روپے کا ٹیکس کم وصول ہوا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیراعظم کو کہنا چاہیے کہ ہمارا وزیراعظم ایمان دار نہیں ہے، حکومت کرپٹ ہے اس لیے ٹیکس وصول نہیں ہورہا ہے یا جیسے ہم کہتے ہیں کہ یہ حکومت نالائق، نااہل اور سلیکٹڈ ہے اس لیے ٹیکس وصول نہیں ہورہا ہے'۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسیاں عوام دشمن ہیں، حکومت کا بجٹ عوامی نہیں بلکہ پی ٹی آئی ایم ایف ہے جبکہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'سندھ کے سیاسی یتیموں کا جو ٹولہ آج کل عمران خان کے ساتھ اتحادی ہے، ان میں سے آج جو وزیر یا حکومتی اتحادی ہیں ان پر تو بینظیر کا اتنا احسان ہے، کسی کی بہن کو سینیٹر بنانے کی کوشش کی، کسی کو صوبائی اسپیکر، دیگر کو صوبائی رکن اسمبلی اور وزیر بنایا لیکن آج وہی لوگ شہید بینظیر کی تصویر اور نام مٹانے میں عمران کا ساتھ دے رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں:بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے 100 روز کو 'یو ٹرن' قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ 'جو لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 9 لاکھ لوگوں کا نام نکالنا چاہتے ہیں ان کو تاریخ یاد رکھے گی، یہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ کو سبوتاژ کر رہی ہے اور احساس کے نام پر غریبوں کا کریڈٹ بھی لینا چاہتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ حکومت عوام کا معاشی قتل کررہی ہے، معاشی حقوق پر حملہ، یہ کس قسم کا آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے کہ جہاں آئی ایم ایف کے لوگ آتے ہیں اور آئی ایم ایف کے نام سے نمائندوں سے مذاکرات کرتے ہیں اورپاکستان کے عوام کے معاشی فیصلے کرتے ہیں'۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'اس پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کے بعد پاکستان کی معیشت پاکستان اور پاکستان کے عوام کی نہیں رہی بلکہ اب آئی ایم ایف کی معیشت معیشت آئی ایم ایف کے لیے اور آئی ایم ایف سے معیشت ہوگئی ہے، ہمیں عوامی حکومت کی ضرورت ہے جو عوام کے مفاد اور معاشی حقوق اور غریبوں کے حقوق کے لیے مذاکرات کرے'۔

حکومت اپنے بوجھ سے گر رہی ہے، خواجہ آصف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں غلطیوں کا انبار لگا ہوا ہے کتنی درستی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت بدل رہا ہے، ہوا بدل رہی ہے، اپوزیشن نے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ یہ حکومت اپنے بوجھ سے خود گر رہی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت بھی بڑھی ہے کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے، ملک میں قحط کی صورت حال ہے لیکن حکومتی بنچیں سنسان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایف آئی اے نے چینی کے بحران پر ایک رپورٹ جمع کرادی ہے، میرے علم کے مطابق انہوں نے چند ایسے لوگوں کے نام لیے ہیں جن کی وجہ سے سارا بحران پیدا ہوا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے حکومت کی معاشی پالیسیز مسترد کردیں

خواجہ آصف نے کہا کہ ‘اسحٰق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جب سیاست دان اتنا گھٹیا وار کرتے ہیں تو اپنی برادری کی توہین کرتے ہیں لیکن اس وقت حکمرانوں نے اس حکومت کو چینی اور آٹا کے مافیا اور چوروں کے لیے پناہ گاہ بنادیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس بحران سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والے اس حکومت میں ہیں یا اس حکومت کے کفیل ہیں یا اس حکومت کے مالی معاون ہیں، میں نے کہا تھا ان لوگوں کا نام آتا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں لے کر آئے ہیں، پس پردہ جتنی سازشیں ہوئیں اس میں ان کا بار بار نام آتا ہے، انہیں موجودہ حکمران یا موجودہ حکومت کا آرکیٹکٹ کہا جاتا ہے، وقت آگیا ہے کہ حکومت کی تباہی کی ذمہ داری لوگ ان پر بھی ڈال دیں گے’۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈیڑھ سال میں کچھ نہیں بگاڑا یہ حکمران خود اپنے دشمن ہیں، اقتدار اور دولت کی ہوس انہیں لے بیٹھی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ وقت بدل رہا ہے، ہوا بدل رہی ہے، مختلف حالات اس حکومت کو ختم کر رہے ہیں، میں نے اسی ایوان میں کہا تھا کہ اس پہلوان کو کوئی شکست نہیں دے گا بلکہ اپنے بوجھ سے خود گرے گا اور اب اپنے بوجھ سے گر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نہ کوئی سازش کریں گے اور نہ کوئی ڈیل کریں گے، ہم چاہتے ہیں آئین سربلند ہو، اس حکومت کی تبدیلی میں ہر قسم کے آئینی تقاضے پورے کیے جائیں، ایک رتی بھر آئین کی خلاف ورزی نہ کی جائے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر تبدیلی آتی ہے تو کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے، اگر کسی سازش کے نتیجے میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کا ہم حصہ نہیں بنیں گے، ہم چاہتے ہیں یہاں ایوان میں جو لوگ آئیں وہ دھاندلی کا پیداوار نہ ہو، ان کا کوئی کفیل نہ ہو اور کسی کفالت کے اندر اس ہاؤس میں نہ پہنچے’۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ‘اگر ہم نے اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنی ہیں، آئین کی بالادستی کو قائم کرنا ہے تو ہم انتظار کریں گے کہ یہ حکمران اور موجودہ حکومت کرپشن اور مہنگائی کی وجہ سے رخصت ہوجائے نہ کہ کسی سازش یا ڈیل کی وجہ سے رخصت ہو’۔

مزید پڑھیں:'ہم حکومت نہیں گرائیں گے یہ خود گرے گی،مشورہ ہے نیب کو ٹائٹ کریں'

ان کا کہنا تھا کہ ‘پیپلزپارٹی نے ہمارا ساتھ دیا، خورشید شاہ آج یہاں موجود نہیں ہیں لیکن میں ان کا شکر گزار ہوں، ہم نے اس ایوان میں مل کر تمام تر غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا’۔

انہوں نے کہا کہ 'ان لوگوں نے استعفیٰ دیا تھا لیکن تنخواہیں اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی گاڑیاں استعمال کرتے تھے، اراکین پارلیمنٹ نے سیلاب زدگان کے لیے عطیہ دیا لیکن عمران خان اور ان لوگوں کا نام اس فہرست میں نہیں ہے'۔

جانتے اور مانتے ہیں کہ مہنگائی بڑھی ہے، حماد اظہر

وفاقی وزیر معاشی امور حماد اظہر نے مہنگائی میں اضافے کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارے پاکستان کی ریٹنگ کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کے خسارے آج ہم پورے کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) دور میں معیشت ٹھیک تھی تو پھر آئی ایم ایف سےکیوں بیل آؤٹ پیکج پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے سخت فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، بجلی کے نرخ بڑھنے کی وجہ گزشتہ حکومت میں کیے گئے معاہدے ہیں، اقتدار میں آئے تو زرمبادلہ ذخائر آدھے تھے۔

وزیر معاشی امور حماد اظہر کا کہنا تھا کہ گیس کا محکمہ پہلی بار سابق حکومت کی وجہ سے خسارے میں گیا، جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ مہنگائی بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی بڑی وجہ سخت فیصلے ہیں جو حکومت کو کرنے پڑے، ہم نے دسمبر تک گردشی قرضوں کو صفر پر لانا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا مشکل فیصلے ہوتے ہیں۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے گندم وقت پر نہیں خریدی جس سے سندھ میں قلت پیدا ہوئی،گزشتہ سال جولائی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024