• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کشمیر سے متعلق اردوان کے بیان پر عمران خان نے 'پانی پھیر دیا'، اپوزیشن کا الزام

شائع February 19, 2020
ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں پر مظالم کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا تھا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں پر مظالم کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا تھا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم عمران کے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف غداری کا کیس چلانے کے ریمارکس نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیر پر دیے گئے تاریخی بیان پر 'پانی پھیر دیا'۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کا ماننا ہے کہ ترک صدر کے بیان کے ایک گھنٹے بعد وزیر اعظم کے 'غیر ضروری' بیان نے ان کے دو روزہ دورہ پاکستان کو نقصان پہنچایا کیونکہ وزیر اعظم کے ریمارکس نے پوری میڈیا اور پارلیمنٹ کی توجہ مہمان کے بیان سے ہٹادی تھی۔

دوسری جانب وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں جمعیت علما اسلام (ف) کے دھرنے میں شرکت کرکے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا جبکہ حکومت اسے عالمی سطح پر نمایاں کر رہی تھی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہونا چاہیے، عمران خان

واضح رہے کہ وزیراعظم خان نے 14 فروری کو وزیر اعظم ہاؤس میں صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے حکومت گرانے کے لیے دھرنا دینے کے اعتراف کے بعد ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔

وزیر اعظم کے متنازع ریمارکس نہ صرف میڈیا بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں بھی زیر بحث رہے اور ارکان پارلیمنٹ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کی حمایت کرنے پر رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کرنا بھی بھول گئے اور وہ وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل دیتے رہے۔

حزب اختلاف کا مؤقف تھا کہ اگر عمران خان نے ایسا کوئی بیان نہ دیا ہوتا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل ترک صدر کی تقریر میڈیا میں توجہ کا مرکز بنتی۔

اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے خلاف بیان نے مباحثے کی توجہ کشمیر اور فلسطین سے بٹائی کیونکہ 'عمران خان کبھی اپنے کنٹینر سے باہر نہیں آسکتے'۔

انہوں نے عمران خان کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کو غدار کہنے پر تنقید کی اور کہا کہ وزیر اعظم ایک روز کے لیے بھی پاکستان کے مناسب نمائندہ بن کر سامنے نہیں آسکتے کیونکہ یہ ان میں ہے ہی نہیں، ساتھ ہی انہوں نے تنقید کی کہ 'عمران خان ایک دن کے لیے بھی ترک صدر کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے کنٹینر سے باہر نہیں آسکتے تھے، یہی احمق اور غیر مہذب شخص عمران خان ہے'۔

سابق وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی نادانی اور ان کے اشتعال انگیز بیانات نے ترک صدر کے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر اہم بیان کو ضائع کردیا۔

دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے مسئلے پر کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رجب طیب اردوان نے مشترکہ اجلاس میں کشمیر پر ایک طاقتور تقریر کی تھی تاہم اس کا اثر اس وقت کم ہوا جب وزیر اعظم عمران خان نے بغیر کسی وجہ کے عوام کی توجہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے خلاف غداری کے مقدمے کا آغاز کرنے پر کردی'۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیریوں پر مظالم کےخلاف ترک صدر کا مذمتی بیان لائق تحسین ہے، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ 'چاہے یہ جان بوجھ کے ہو یا بے وقوفی کا نتیجہ، ایک بات واضح ہے کہ اس سے عمران خان کی نالائقی (اس طرح) بے نقاب ہوگئی ہے جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئی'۔

علاوہ ازیں رابطہ کرنے پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ 'اگر وزیر اعظم نے کہا ہے تو کیا، آگے بڑھیں اور دیکھیں آگے کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کشمیر کاز کے سب سے بڑے وکیل ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے تمام عالمی فورمز پر اس کی آواز اٹھائی ہے۔

'انہوں نے کہا کہ 'اگر ایک جانب عمران خان کے ریمارکس پر تنقید کی جارہی ہے تو دوسری جانب انہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو دعوت دینے کا بھی کریڈٹ دینا چاہیے جنہوں نے کشمیر کے حوالے سے بڑا بیان دیا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اپوزیشن اب کیوں کشمیر کی فکر کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نومبر میں انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے کنٹینر پر چڑھ کر کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا تھا'۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024