روپے کی قدر
روپےکی قدرمیں حالیہ کمی قیاس آرائی پر مبنی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ جب بھی ڈالر کےمقابلےمیں روپیا اپنی قدر کھونےلگتا ہے، ایک شیطانی چکر جنم لیتا ہے۔
لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں قدر کی یہ کمی اور بڑھے گی یوں طلب میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ طلب میں بہت زیادہ اضافہ قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے۔
ایسے میں کرنسی مارکیٹ کے استحکام کی خاطر، ہمیشہ اسٹیٹ بینک کو بروقت قدم اٹھاتے ہوئے، شیطانی چکر کو توڑنے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر کی تازہ فراہمی لانا پڑتی ہے۔
انتخابات کی طرف جانے والے ایّام سے، یہ شیطانی چکر کہیں پیچھے رہ گیا تھا مگر اب ایک بار پھر کرنسی مارکیٹ میں لوٹ چکا ہے۔
روپے کی قدر میں حالیہ کمی اس لیے غیر معمولی ہے کہ انٹر بینک شرح تبادلہ کے مقابلے میں اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کا فرق کافی بڑھ چکا۔
فرق کا یہ پھیلاؤ کئی دہائیوں بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ ان دنوں جس تیزی سے روپے کی قدر میں کمی کا مشاہدہ ہوا، کرنسی لین دین کے بنیادی اصول اسے درست قرار نہیں دے سکتے۔
زرِ مبادلہ کے ملکی ذخائرمیں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور جتنی تیزی سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں نرخ پھسلے، ایسا انٹر بینک سطح پر نہیں ہوا۔
آئی ایم ایف کی طرف سے مطالبہ کردہ قبل از قرض شرائط کے باعث کچھ غیر یقینی ضرور پیدا ہوئی۔ روپے کی قدر میں کمی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان شرائط کو بطور افواہ استعمال کیا گیا۔
بروقت اور مناسب توجہ دی جائے تو افواہوں اور ان پر مبنی جذباتی لہروں کو روکنا کافی آسان ہے۔ یہ بات لائقِ اطمینان ہے کہ وفاقی وزیرِ خزانہ اس مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں اور انہوں نے صورتِ حال کے بارے میں کرنسی ڈیلروں اور بینکاروں سے فون پر بات چیت کی ہے۔
لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو کرنسی پر جذباتی چالوں کے خلاف روپے کی پہلی دفاعی صف ہے، وہ اس تمام تر کارروائی سے غائب نظر آرہا ہے۔
طوفانی لہروں میں گھرے جہاز کو کسی اور شے کے بجائے سب سے زیادہ ضرورت کپتان کی ہوتی ہے۔ کرنسی مارکیٹ کو جس نوع کی جذباتی لہروں کا سامنا ہے، اس کے پیشِ نظر تمام ہاتھ عشرے پر نظر آنے چاہئیں۔
کرنسی مارکیٹ میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے ٹھوس کارروائی کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے، اسٹیٹ بینک کو جتنا جلد ہوسکے، خوابِ غفلت سے باہر نکلنا پڑے گا۔