کووڈ 19 کے علاج کے لیے تجرباتی دوا کے نتائج حوصلہ افزا قرار
چین میں فروری کی ابتدا میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے تجرباتی دوا ریمیڈیسیور (Remdesivir) کی آزمائش شروع ہوئی تھی اور پھر امریکا میں بھی اس کا ٹرائل شروع ہوا۔
اب امریکا میں ایک ٹرائل کے نتائج سامنے آئے ہیں جن میں اسے تجرباتی دوا کے کووڈ 19 کے خلاف نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا ہے۔
جریدے نیو انگلینڈ جنرل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اس دوا کا استعمال مریضوں کے ایک چھوٹے گروپ میں کیا گیا اور ان میں سے ایک اکثریت کی حالت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی، جس سے فی الحال ناقابل علاج سمجھے جانے والے مرض کے علاج کی تلاش کی امید بڑھ گئی ہے۔
اس تحقیق میں جن مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، ان کی حالت نازک تھی اور انہیں یہ دوا compassionate use (یعنی ایسی دوا جس سے علاج کی منظوری نہ دی گئی ہو مگر کوئی علاج نہ ہونے پر اسے استعمال کرایا جائے) ٹرائل کے طور پر استعمال کرائی گئی۔
تحقیق میں 53 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا تعلق امریکا، یورپ اور برطانیہ سے تھا اور حالت خراب ہونے پر ان میں سے 50 فیصد کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا جبکہ 4 کو ہارٹ۔لنک بائی پاس مشین سے منسل کیا گیا تھا۔
ان سب مریضوں کو 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا اور 18 دن میں 68 فیصد کی حالت میں بہتری آگئی اور جسم میں آکسیجن کی سطح میں اضافہ ہوا۔
30 میں سے 17 افراد جو وینٹی لیٹر پر تھے، وہ لائف سپورٹ مشینوں سے نکلنے کے قابل ہوگئے، جبکہ تحقیق میں شامل 50 فیصد کے قریب افراد صحتیاب ہونے کے بعد ڈسچارج ہوگئے مگر 13 فیصد ہلاک ہوگئے۔
اموات کی شرح ان میں زیادہ تھی جو وینٹی لیٹر پر تھے، جن میں سے 18 فیصد کا انقال ہوا۔
لاس اینجلس کے سیڈا سینائی میڈیکل سینٹر کے ڈائریکٹر اور تحقیقی ٹیم میں شامل جوناتھن ڈی گرائن نے کہا 'ہم اس ڈیٹا سے کوئی حتمی نتیجہ تو نہیں بیان کرسکتے، مگر ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے مشاہدے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریمیڈیسیور کے نتائج حوصلہ افزا ہیں'۔
تحقیق میں اس دوا کو کووڈ 19 کے علاج کے لیے محفوظ اور مؤثر دریافت کیا گیا۔
اس دوا کے حوالے سے متعدد بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائلز اس وقت ہورہے ہیں تاکہ اس کے کووڈ 19 پر اثرات کو دریافت کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں اس بیماری کے نتیجے میں اب تک 17 لاکھ سے زائد افراد بیمار جبکہ ایک لاکھ 3 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس بیماری کا فی الحال کوئی علاج موجود نہیں مگر اس کی علامات کا علاج کیا جاتا ہے اور اب تک 3 لاکھ 89 ہزار سے زائد افراد صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔
ریمیڈیسیور پر ہونے والی ایک تحقیق چین میں جاری ہے جس کے نتائج رواں ماہ جاری ہونے کا امکان ہے جبکہ امریکا کے یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کے زیرتحت تحقیق کے نتائج بھی آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔
اس دوا کو گیلاڈ سائنسز انکارپوریشن نے تیار کیا ہے جس کی جانب سے بھی 2 ٹرائلز کے اخراجات ادا کیے جارہے ہیں۔
اس دوا کو وبائی امراض جیسے ایبولا پر قابو پانے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور نئے کورونا وائرس پر ابتدائی پر مؤثر ثابت ہونے کی علامات پر چین میں انسانوں پر اس کا ٹرائل فوری طور پر شروع کیا گیا۔
جنوری میں طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ امریکا میں اس وائرس کے پہلے مریض کا نمونیا اسی تجرباتی دوا کے استعمال سے بہتر ہوا۔
اس نئے وائرس کی وبا سے پہلے بھی امریکا میں مختلف یونیورسٹیوں نے لیبارٹریز ٹیسٹوں میں دریافت کیا تھا کہ یہ دوا متعدد اقسام کے کورونا وائرسز کے خلاف موثر انداز سے کام کرتی ہے۔
اگر یہ دوا بڑے پیمانے پر مؤثر قرار پاتی ہے تو ایک مسئلہ اس کی مناسب مقدار میں سپلائی کا ہوگا اور گیلاڈ کی جانب سے اس کی تیاری کے عمل کو تیز کیا گیا ہے۔
چین میں تو اسے فروری میں پیٹنٹ کرانے کے لیے بھی درخواست جمع کرائی گئی تھی جس سے یہ اشارہ ملا تھا کہ چین کی نظر میں یہ تجرباتی دوا کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
فروری میں طبی جریدے جرنل سیل میں شائع ایک مقالے میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ remdesivir اور chloroquine (80 سال پرانی ملیریا کی دوا) لیبارٹری ٹیسٹوں میں نوول کورونا وائرس پر قابو پانے میں 'بہت موثر' ثابت ہوئی ہیں۔
چین اس وقت chloroquine تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اب remdesivir تک رسائی چاہتا ہے، ابھی یہ واضح نہیں کہ چین کے انٹیلکچوئل پراپرٹی حکام کی جانب سے ووہان کی انسٹیٹوٹ کی درخواست پر کیا فیصلہ کیا گیا۔