• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جو حکومت چینی کو قابو نہیں کرسکے وہ کورونا کو بھی کنٹرول نہیں کرسکتی، شاہد خاقان

شائع May 30, 2020
20 مہینے سے چینی کی قیمت بڑھتی رہی اور آج بھی بڑھ رہی ہے لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں—فوٹو: ڈان نیوز
20 مہینے سے چینی کی قیمت بڑھتی رہی اور آج بھی بڑھ رہی ہے لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جو حکومت چینی کو قابو نہیں کرسکے وہ کورونا کو بھی کنٹرول نہیں کرسکتی۔

راولپنڈی میں مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے ایک کلو چینی کی خریداری کی 90روپے کی رسید دکھاتے ہوئے کہا کہ اس ڈاکے کے اصل ذمہ دار عمران خان، عثمان بزدار، ڈاکٹر عبدالحٖفیظ شیخ اور اسد عمر ہیں لیکن ان کا نام چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹس میں نہیں ملے گا۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ ہم کمیشن کے سامنے خود پیش ہوئے یہی بات بتانے کے لیے کہ جب تک کمیشن چینی کی قیمت میں اضافے کے ذمہ داروں وزیراعظم عمران خان، عثمان بزدار، اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اس وقت کے اور موجودہ چیئرمین کو نہیں بلائیں گے تو کمیشن کا کوئی مقصد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر خواتین کے جھگڑے کا معاملہ چل رہا ہے جس کی ویڈیو وائرل ہوئی، پرچے بھی درج ہوگئے ہیں لیکن واقعے کے مرکزی کردار عثمان ملک کا کوئی ذکر نہیں ہے اسی طرح کمیشن کی رپورٹ میں مرکزی کردار عمران خان کا ذکر نہیں۔

مزید پڑھیں: چینی بحران: تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی

سابق وزیراعظم نے کہا کہ برآمد سے پہلے چینی کی قیمت 55 روپے 70 پیسے تھی اور آج 90روپے ہے جو 34 روپے کا اضافہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملک میں چینی کی قیمت 60 فیصد بڑھ گئی ہے اور مل مالکان اس پر اضافی 180 ارب روپے کا منافع حاصل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہر روز کوئی کرائے کا آدمی آکر پریس کانفرنس کرتا ہے لیکن وزیر کیوں نہیں بولتے، وزیراعظم اور کابینہ کیوں نہیں بولتی، عوام آج بھی 90روپے کی چینی خرید رہے ہیں، ڈاکا جاری ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ جس دن سے کمیشن بنا ہے چینی کی قیمت میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، یہ حکومت کمیشن سے بھی نہیں گھبراتی اور اس دوران بھی قیمت بڑھ گئی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا حکومت نے قیمت میں کمی کے لیے اقدام اٹھایا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے چینی برآمد کرنے کے ایک فیصلے سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا، کابینہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے وزیراعظم جواب دیں کہ یہ ڈاکا اب بھی جاری ہے۔

رہنما مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ حکومت شوگر مافیا کو تحفظ دے رہی ہے جو کابینہ اور عمران خان کے گھر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں بیٹھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ڈاکا ڈالا اور کمیشن بنایا جس کی رپورٹ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے بنائے ہوئے قانون کی وجہ سے سامنے آئی لیکن وہ ناکافی ہے کیونکہ اس میں حقائق کو چھپایا گیا اور صرف توجہ ہٹانے کے لیے ایسی باتیں لکھ دی کہ پاکستانی عوام کو کچھ معلوم نہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی بحران تحقیقات: شاہد خاقان کا شواہد فراہم کرنے کیلئے چیئرمین انکوائری کمیشن کو خط

سابق وزیراعظم نے کہا کہ چینی کی برآمد کا فیصلہ، اس پر سبسڈی دینے اور نگرانی نہ کرنے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 20 مہینے سے چینی کی قیمت بڑھتی رہی اور آج بھی بڑھ رہی ہے لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں ذمے داروں کو نہیں بلایا گیا بلکہ اصل کرداروں سے توجہ ہٹائی گئی تو اس رپورٹ کا کوئی مقصد نہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'یہ حکومت ہی معصوموں کی ہے، یہاں تو کوئی چور نہیں ہے صرف 200 ارب روپے کا ڈاکا ڈال کر آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اور کمیشن پر کمیشن بنارہے ہیں جو نالائق اور نااہل افسروں پر مشتمل ہے جو یہ معلوم نہیں کرسکے کہ برآمد کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط'۔

رہنما مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ کمیشن کے افسران یہ معلوم نہیں کرسکے کہ یہ فیصلے کرنے والے لوگ کون تھے۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کورونا جیسے مسئلے پر حکومت ہی کارروائی کرتی ہے اپوزیشن صرف بات ہی کرسکتی ہے لیکن حکومت اس میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو حکومت چینی کو قابو نہ کرسکے وہ کورونا کو بھی قابو نہیں کرسکتی۔

واضح رہے کہ حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30 فیصد کا فرق آرہا ہے۔

مزید پڑھیں: چینی بحران: 'جہانگیر ترین،مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے کھاتوں میں ہیر پھیر کی'

شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے 6 بڑے گروہ جو پاکستان کی چینی کی 51 فیصد پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کے پیداواری حجم کی بنیاد پر آڈٹ کیا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا، بگاس اور مولیسس کی فروخت کو انڈر انوائس کیا جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں کارپوریٹ فراڈ بھی سامنے آیا اور جے ڈی ڈبلیو کی جانب سےفارورڈ سیلز، بے نامی فروخت اور سٹہ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024