شمالی کوریا کا جنوبی کوریا سے تمام رابطے ختم کرنے کا اعلان
شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کو شمن قرار دیتے ہوئے فوجی اور سیاسی تعلقات سمیت تمام رابطے ختم کرنے کا اعلان کردیا جس میں دونوں ملکوں کے ہاٹ لائن پر رابطے بھی شامل ہیں۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا نے 2018 میں تناؤ میں کمی کے لیے ایک دفتر قائم کیا تھا جس سے روزانہ کی بنیاد پر کال کی جاتی تھی لیکن اب اس دفتر کو بھی بند کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی و جنوبی کوریا کی سرحد پر بارودی سرنگیں ہٹانے کا عمل شروع
شمالی اور جنوبی کوریا ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں کیونکہ 1953 میں جنگ کے اختتام کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
کوریا کی سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق شالی کوریا نے فوجی رابطے بھی منقطع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی کوریا نے رابطے کے لیے قائم مذکورہ دفتر بند کرنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے جنوبی کوریا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی بااثر بہن کم یو جونگ نے کہا تھا کہ اگر جنوبی کوریا کے رضاکاروں نے پمفلٹ بانٹنے بند نہ کیے تو وہ جنوبی کوریا کے ساتھ ہونے والے فوجی معاہدے کو ختم کردیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے شمالی کوریا کودہشت گردی کی معاون ریاست قرار دے دیا
واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی جانب سے غباروں میں بھر کر پمفلٹس پھینکے گئے تھے جس میں شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان کے جوہری عزائم کے بارے میں عوام کو خبردار کیا گیا تھا۔
کورین سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق شمالی کوریا نے کہا کہ دونوں کوریا کے آپس کے تعلقات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب جنوبی کورین حکام کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور اب ان سے کوئی بات نہیں ہو گی۔
کم یو جونگ اور ایک اور اہم عہدیدار کم یونگ چول نے کہا کہ جنوبی کوریا کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا جائے گا جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا پر عائد تمام پابندیاں نہیں ہٹائی جاسکتیں، ٹرمپ
واضح رہے کہ 2018 میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات اس وقت بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے جب دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے تین مرتبہ ملاقات کی تھی اور ایک فوجی معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر تناؤ میں کمی پر بھی اتفاق ہوا تھا لیکن اکثر معاملات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
واضح رہے 1953 میں کوریا جنگ کے اختتام کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی جس میں سے گزشتہ 2 ملاقاتیں بالترتیب سال 2000 اور 2007 میں شمالی کوریا میں ہوئیں، جبکہ کوریا جنگ کے بعد کِم جونگ ان شمالی کوریا کے پہلے حکمران ہیں جو سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا آئے۔
ملاقات کے بعد دونوں سربراہان نے مشترکہ طور پر ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے تحت اتفاق کیا گیا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا، تاہم اس ضمن میں کسی لائحہ عمل یا ممکنہ مدت کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی کوریا: جوہری تنازع ختم کرنے کیلئے اُن کی اِن سے تاریخی ملاقات
مشترکہ اعلامیے میں خطے میں فوجی کشیدگی کم کرنے کے لیے اسلحے میں کمی کرنے، جنگ کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں کی ملاقات کرانے، دونوں ممالک کو ریل کے نظام سے آپس میں منسلک کرنے اور رواں سال ہونے والے ایشیائی گیمز سمیت کھیلوں کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔
1953 کی کوریا کی جنگ کے بعد سرد جنگ کے دوران بننے والے ماحول میں شمالی کوریا کمیونزم کے تحت سوویت یونین جبکہ جنوبی کوریا سرمایہ دارانہ نظام کے تحت امریکا کے کیمپ میں آگئے تھے۔
سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہوجانے کے بعد بھی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی۔