• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:10pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:29pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:10pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:29pm

سیاحت کے فروغ کیلئے 10 سالہ پالیسی، 5 سالہ ایکشن پلان تیار کرلیا گیا، زلفی بخاری

شائع July 5, 2020
معاون خصوصی نے بتایا کہ ورلڈ ٹورازم فورم 2021 کی میزبانی پاکستان کرے گا—تصویر : ڈان نیوز
معاون خصوصی نے بتایا کہ ورلڈ ٹورازم فورم 2021 کی میزبانی پاکستان کرے گا—تصویر : ڈان نیوز

معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی اور چیئرمین پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) ذوالفقار بخاری المعروف زلفی بخاری نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 10 فیصد سیاحت سے حاصل ہوتا ہے لیکن پاکستان کی جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 3 فیصد بھی نہیں اسے بڑھانے سے اربوں روپے کی آمدن حاصل ہوگی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے زلفی بخاری نے بتایا کہ نیشنل ٹورازم کوآرڈنیشن بورڈ (این ٹی بی سی) نے 2020 سے 2030 کی 10 سالہ پالیسی تشکیل دے دی ہے اور اس میں 5 سال کے لیے ایکشن پلان بھی تیار کیا جاچکا ہے۔

زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا ایک برینڈ بھی بنایا جاچکا ہے جسے 18 اپریل کو لانچ کرنا تھا لیکن عالمی وبا کی وجہ سے روک دیا گیا اور اب سال کے آخر میں لانچ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن بند نہیں کررہے، تنظیم نو کیلئے اقدامات کر رہے ہیں'

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے برینڈ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لانچ کیا جائے گا تا کہ لوگ پاکستان کی خوبصورتی دیکھنے آئیں۔

معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی کا کہنا تھا کہ ہوٹلز اور موٹلز کے لیے کم از کم قومی معیار کا بھی متعین کیا جاچکا ہے جبکہ ایک نیشنل ای پورٹل تیار ہے جہاں دنیا بھر سے بکنگ کی جاسکے گی اور اس پر موسم ٹریفک، آبادی، ریٹنگ وغیرہ کی معلومات ایک جگہ دستیاب ہوں گی اور یہ تمام چیزیں برینڈ پاکستان کے ساتھ لانچ کی جائیں گی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک انڈاؤمنٹ فنڈ تشکیل دیا گیا جس میں سیاحت کی مارکیٹنگ اور برینڈنگ کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ ہر چیز کا معیار نظر آئے۔

معاون خصوصی نے بتایا کہ ورلڈ ٹورازم فورم 2021 کی میزبانی پاکستان کرے گا اسی طرح ڈی ای ایٹ جس کی میزبانی گزشتہ برس ملائیشیا نے کی تھی 2022 میں پاکستان کی میزبانی پر اتفاق کیا گیا ہے جس میں ترکی، ملائیشیا، ایران، قطر وغیرہ کے وزرائے سیاحت 3 دن کے اجلاس کے لیے پاکستان آئیں گے اور پاکستان میں سیاحتی مواقع کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مزید پڑھیں: شمالی علاقہ جات میں ٹورازم کارپوریشن کے تمام ہوٹلز بند، ملازمین فارغ

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پی ٹی ڈی سی کے حوالے سے حکومت کو گزشتہ 5 سال میں کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا تھا جو لوگ وہاں جاتے تھے ہمیں وہاں کی سہولیات پر برا بھلا کہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کورونا کی وجہ سے لوگوں کو ملازمت سے نہیں نکالا بلکہ 2019 میں ہی کابینہ نے پی ٹی ڈی سی کو چلانے کے حوالے سے میکانزم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہوٹلز کو صوبوں کو دیا جائے گا تا کہ وہ ان ہوٹلز کو 30 سال کی مدت کے لیے نجی سیکٹر کو لیز پر دے سکیں جس میں بہترین ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار ان کو اچھے طریقے سے چلا سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 سال کی لیز کے حوالے سے دستاویزات کی تیاری کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں اور اس منصوبے کا آغاز گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے 46 جائیدادوں سے کیا جارہا ہے اور 3 سے 4 سال میں عوام ان 46 مقامات پر 3 اسٹار اور 4 اسٹار ہوٹلز میں تبدیل ہوتے دیکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سیاحت پر کورونا بحران کے بڑھتے سائے

زلفی بخاری نے کہا کہ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلز اس لیے فائدے میں نہیں رہے کیوں کہ ماضی میں جس نے بھی اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی اپنے سیاسی مفادات پورے کیے۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں پی ٹی ڈی سی سے پیپلز پارٹی کے 907 ملازمین کو فارغ کیا تھا اور اپنا ایم ڈی لگا کر اپنے سیاسی کارکنان کو نوکریاں دیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی ڈی سی کی بندش کا فیصلہ جلد بازی کا فیصلہ نہیں تھا اور دیگر ممالک کے ماہرین سیاحت سے مشاورت کر کے ان کی یونینز کے ساتھ مذاکرات کیے لیکن بات نہیں بنی اور ہم نے گولڈن ہینڈ شیک کے ایک اچھے پیکج کی پیشکش کی جسے مسترد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں ضمانت دیتا ہوں کہ آپ ایک سال کے اندر ہی خود ہمارے فیصلے کے نتائج دیکھیں گے اور پی ٹی ڈی سی منافع میں آئے گا۔

یاد رہے کہ 2 جولائی کو پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے ملک کے شمالی علاقہ جات میں موجود تمام ہوٹلز بند کرتے ہوئے ملازمین کو فارغ کردیا تھا۔

اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ کارپوریشن مسلسل نقصانات برداشت کررہی تھیں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 13 نومبر 2024
کارٹون : 12 نومبر 2024