• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

صحافی مطیع اللہ جان گھر واپس پہنچ گئے

شائع July 22, 2020
مطیع اللہ جان کی حالت ٹھیک ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، ذرائع — فائل فوٹو / رائٹرز
مطیع اللہ جان کی حالت ٹھیک ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، ذرائع — فائل فوٹو / رائٹرز

سینئر صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا ہونے کے کئی گھنٹے بعد منگل کو رات گئے گھر واپس پہنچ گئے۔

خاندانی ذرائع نے کہا کہ مطیع اللہ جان کو نامعلوم افراد نے اسلام آباد کے قریب فتح جنگ کے صحرائی علاقے میں چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حالت ٹھیک ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

صحافی اعزاز سید نے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان کے ہمراہ تصویر شیئر کی اور کہا کہ 'میرے دوست کو خوش آمدید کہنے پر خوش ہوں، انہیں 12 گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔'

نجی چینل 'جیو نیوز' نے مطیع اللہ جان کا حوالہ دے کر کہا کہ 'انہیں اغوا کے بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔'

اس کے بعد انہیں شہر کے اندر گھمایا جاتا رہا اور پھر فتح جنگ چھوڑ دیا گیا جہاں مقامی افراد نے اہلخانہ تک پہنچنے میں ان کی مدد کی۔

بعدازاں آج (22 جولائی) صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان نے کہا کہ میں باحفاظت گھر پہنچ گیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اللہ نے مجھ پر اور میرے اہلخانہ پر کرم کیا، میں اپنے دوستوں ، قومی اور بین الاقوامی صحافیوں، صحافی برادری، سیاسی جماعتوں، سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کارکنان، وکلا تنظیموں، عدلیہ کا شکرگزار ہوں کہ ان کے فوری ردعمل نے اسے(واپسی کو) ممکن بنایا۔   واضح رہے کہ منگل کی صبح سینئر صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا ہوگئے تھے اور اس بات کی تصدیق ان کے اہلیہ نے بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی جس میں صحافی کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔

جیسے ہی اس خبر نے صحافیوں اور عالمی تنظیموں کی توجہ حاصل کی اسی دوران مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 3 بج کر 17 منٹ پر ٹوئٹ کی گئی جو ممکنہ طور پر ان کے بیٹے نے کی۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’میرے والد کو دارالحکومت (اسلام آباد) کے وسط سے اغوا کیا گیا، میں انہیں تلاش کرنے کا اور ان کی گمشدگی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں, خدا ان کی حفاظت کرے‘۔

وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بھی مطیع اللہ جان کے اغوا ہونے کی تصدیق کی اور کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ 'یہ واضح ہوچکا ہے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا، ہم نہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اسے نبھائیں گے۔

مزید پڑھیں: مغوی صحافی مطیع اللہ کو بازیاب کرانا حکومت کا فرض ہے، شبلی فراز

سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اطلاع ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن آبپارہ کی نفری مذکورہ مقام پر پہنچی، سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمر خان اور دیگر پولیس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔

اس حوالے سے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شوکت محمود نے بتایا کہ ابھی تک مطیع اللہ کی اہلیہ نے درخواست نہیں دی، اسکول کے باہر جہاں گاڑی کھڑی ہے اس کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان لاپتا، اپوزیشن کا اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ

مطیع اللہ جان کے اغوا کے فوری بعد سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ٹوئٹ میں بتایا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد کو معاملے پر کمیٹی کو بریف کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف ایک متنازع ٹوئٹ پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا از خود نوٹس زیر سماعت ہے جس کی سماعت رواں ہفتے ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024