• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

رات گئے تک جاگنے کی عادت کا بڑا نقصان جان لیں

شائع September 22, 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

اگر تو آپ رات گئے تک جاگنے اور صبح اٹھنے میں مشکل محسوس کرنے والے افراد میں سے ہیں، تو آپ کے لیے بری خبر ہے۔

درحقیقت یہ عادت رات گئے تک جاگنے والوں کے لیے جان لیوا بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

برطانیہ کی لیسٹر شائر یونیورسٹی اور آسٹریلیا کی جنوبی آسٹریلیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ لوگوں کی سونے کی عادات اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے درمیان تعلق موجود ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ رات گئے تک جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے والے افراد کا طرز زندگی بہت زیادہ سست ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ جسمانی طور پر بہت کم متحرک ہوتے ہیں، جس سے ان کی صحت کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ذیابیطس ٹائپ ٹو عموماً زیادہ جسمانی وزن اور سست طرز زندگی کا نتیجہ ہوتا ہے جو اس وقت دنیا کے ہر 11 میں سے ایک بالغ افراد کو لاحق ہے۔

چونکہ ذیابیطس متعدد امراض کا باعث بننے والی بیماری ہے تو ماہرین کی جانب سے اس حوالے سے کافی کام کیا جارہا ہے۔

اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ لوگوں کی نیند کی عادات جسمانی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور اس کو سمجھنے سے ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی حالت کو مستحکم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بڑے پیمانے پر ذیابیطس کے مریضوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ متحرک طرز زندگی کو برقرار رکھ کر صحت مند زندگی گزار سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جو لوگ رات گئے سونے اور دن میں دیگر سے اٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے لیے تو یہ بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے افراد میں علی الصبح جاگنے والوں کے مقابلے میں ورزش کا رجحان 56 فیصد کم ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ورزش ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اس سے صحت مند وزن برقرار اور بلڈ پریشر برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے جبکہ امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

طبی جریدے بی ایم جے اوپن ڈائیبیٹس ریسرچ اینڈ کیئر میں شائع تحقیق میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے 635 مریضوں کا جائزہ 7 دنوں تک لیا گیا تاکہ ان کے مختلف جسمانی رویوں، نیند، آرام اور مجموعی جسمانی سرگرمیوں کا تعین کیا جاسکے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 25 فیصد افراد جلد سونے اور جاگنے کے عادی تھے، 23 فیصد رات گئے تک جاگنے اور دن میں دیر سے اٹھتے تھے جبکہ باقی 52 فیصد نے کسی گروپ سے اپنا تعلق ظاہر نہیں کیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ نتائج سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں کے رویوں کے بارے میں منفرد تفصیلات ملتی ہیں۔

انہوں نے ببتایا کہ رات گئے سونے اور کم جسمانی سرگرمیوں کے درمیان تعلق واضح ہے، یعنی بستر پر رات گئے جانے والے جسمانی طور پر کم متحرک ہوتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں علی الصبح جاگنے والے افراد جسمانی طور پر زیادہ متحرک اور صحت مند طرز زندگی کو اپناتے ہیں۔

کچھ عرصے قبل امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ صبح جلد اٹھنے اور رات کو جلد سونے کے عادی افراد کے مقابلے میں رات گئے تک جاگنے والوں کو زیادہ امراض اور طبی مسائل کا زیادہ سامنا ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے افراد میں کسی بھی مرض سے درمیانی عمر میں موت کا خطرہ جلد اٹھنے والوں کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح اس عادت کے نتیجے میں ذیابیطس کا خطرہ 30 فیصد، دماغی امراض کا 25 فیصد، معدے کے امراض کا خطرہ 23 فیصد جبکہ نظام تنفس کا خطرہ 22 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران 5 لاکھ افراد سے زائد کی نیند کے حوالے سے عادات کا تجزیہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ رات گئے تک جاگنے کا خمیازہ جسم کو مختلف طبی مسائل کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ رات گئے تک جانے والوں میں ذیابیطس، نفسیاتی امراض اور دماغی عوارض کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ رات دیر تک جاگنے سے جسم کی اندرونی گھڑی پر اثرات مرتب کرتی ہے جو باہری ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کرپاتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ غلط وقت پر کھانا، ورزش نہ کرنا، نیند کی کمی اور رات گئے تک جاگنے سے متعدد صحت کے لیے نقصان دہ رویوں یا عادات کو اپنانا ممکن ہوجاتا ہے۔

محققین نے اس حوالے سے لوگوں کی صبح یا شام کے حوالے سے نیند کے حوالے سے رجحان اور امراض کے خطرے کے درمیان تعلق جاننے کی کوشش کی۔

ساڑھے 6 سال تک 5 لاکھ افراد کی عادات کا جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا کہ رات گئے تک جاگنا صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Chronobiology انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024