• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

ہمیں افسوس ہے اداروں یا اعلیٰ شخصیات کے نام لینے کی نوبت کیوں آئی، مولانا فضل الرحمٰن

شائع October 20, 2020
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں اداروں کا احترام ہے—فائل/فوٹو:ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں اداروں کا احترام ہے—فائل/فوٹو:ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں افسوس ہے کہ جلسوں میں اداروں یا اعلیٰ شخصیات کا نام لینے کی نوبت کیوں آئی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے تمام صوبوں کے بڑے شہروں میں جلسے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، گوجرانوالہ اور کراچی میں لوگوں کی بھرپور شرکت رہی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کوئٹہ، پشاور، لاہور اور ملتان میں مکمل حصہ داری کے ساتھ شریک ہوں گے، پی ڈی ایم کا نام ہی مل کر جدوجہد سے ملک میں آئین کی عمل داری کو یقینی بنانا ہے’۔

مزید پڑھیں:ملک میں ظلم و جبر کی حکومت ہے، مولانا فضل الرحمٰن

جلسوں میں اداروں کے سربراہوں کے نام لینے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں خود افسوس ہے کہ ہم کیوں اداروں یا اعلیٰ شخصیات کا نام لے رہے ہیں اور یہ نوبت کیوں آئی ہے، یہ نوبت نہیں آنی چاہیے تھی، اب بھی وقت ہے کہ واپس حقیقی جمہوریت کی طرف جائیں اور عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ کو وجود میں لانے ضرورت ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘جب تک ہم ملک کو جمہوریت کی حقیقی پٹری پر پوری قوم اور ملک کو نہیں ڈالتے اس وقت تک یہ سوال مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم کہتے ہیں کہ اداروں، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ سمیت سب کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے، آئین نے ہر ادارے کے لیے ایک دائرہ کار متعین کیا ہے اور اس دائرہ کار میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں تو ہمارے سر آنکھوں پر’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ان اداروں اور ان شخصیات کا بھی احترام کرتے ہیں، اگر کوئی آدمی آپ کے محلے میں آپ کی حویلی کے اندر آکر سمجھے کہ یہ اس کی حویلی ہے تو پھر غریب آدمی اس وقت احتجاج کرتا ہے’۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘کسی دوسرے کے علاقے میں جا کر اپنا کردار کرنے سے شکوے شکایتیں پیدا ہوتی ہیں، ہم ملک کو ایک قوم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، سیاست دانوں، اداروں کے اندر قومی وحدت دیکھنا چاہتے ہیں اور قوم کو اسی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام اس حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور حکومت عوام گھر بھیج دے گی کیونکہ غریب بچوں کے لیے راشن خریدنے، بجلی کا بل ادا کرنے، بچوں کی اسکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہا ہے تو کیسے زندگی گزارے گا’۔

مزید پڑھیں: نواز شریف نے اداروں اور کرداروں کے درمیان لکیر کھینچ دی، مریم نواز

کراچی میں گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر)صفدر کی گرفتاری پر حکومت سندھ کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کو وہ تمام راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں جو قانون کہتا ہے لیکن کل جو کچھ ہوا اس پر حکومت اور پارٹی کو ندامت ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہی پی ٹی آئی اسی مزار قائد پر ہلڑ بازی کرتی رہی ہے اور ان کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا لیکن انہوں صرف اتنا کہا کہ ووٹ کو عزت دو تو اس کو بے حرمتی کا معنی دینا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پی ٹی آئی کے لوگ حرمین شریفین پر کھڑے ہو کر نواز شریف کے خلاف نعرے لگاتے رہے ہیں، جن کو کبھی حرمین شریفین اور مزار قائد کی حرمت کا احساس نہیں ہوا لیکن آج صفدر کی جانب سے ووٹ کو عزت دو کہنا اتنا بڑا جرم ہوگیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہوٹل کے دروازہ توڑ کر کمرے میں داخل ہو کر خاتون کی حرمت کا بھی لحاظ نہ رکھا گیا، یہ نہ قانون ہے اور نہ آئیں ہے، اگر اس نے غلطی کی ہے تو شاید آداب کے حد تک ہوگی لیکن ان کے ردعمل نے آئین اور قانون کو توڑا ہے جو نری بدمعاشی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘نری بدمعاشی کو ہم کس طرح قبول کرسکتے ہیں اور جب دوسری پارٹی ہلڑبازی کرتی ہے تو اس کو کہیں ان کا حق، لیکن حکمرانوں کے مزاج کو گراں گزرے تو وہ جرم بن جائے’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم اپنی تحریک کو آئین و قانون کے دائرے میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شراکت سے آگے بڑھائیں گے، ہم آئین و قانون کو پامال کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی عوامی قوت کے علاوہ کسی نادیدہ قوت کا سہارا لینا چاہتے ہیں’۔

خیال رہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے 16 اکتوبر کر پنجاب کے شہر گوجرانوالہ اور 18 اکتوبر کو کراچی میں بڑا جلسہ کیا تھا جس کے بعد حکومت مخالف تحریک میں تیزی آئی ہے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور دیگر رہنما 18 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچے تھے۔

باغ جناح میں ہونے والے جلسے میں شرکت سے قبل رہنماؤں اور کارکنان نے مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی تھی، جیسے ہی فاتحہ ختم ہوئی تو قبر کے اطراف میں نصب لوہے کے جنگلے کے باہر کھڑے مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے مریم نواز کے حق میں نعرے لگانے شروع کیے تھے، جس پر کیپٹن (ر) صفدر نے بظاہر مزار قائد پر اس طرح کے نعرے لگانے سے روکنے کا اشارہ کر کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا جبکہ یہ بھی مزار قائد کے پروٹوکول کے خلاف تھا۔

اس دوران مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما خاموش کھڑے رہے لیکن کیپٹن (ر) نے ایک اور نعرہ لگانا شروع کردیا ’مادر ملت زندہ باد‘ اور ہجوم نے بھی اس پر جذباتی رد عمل دیا۔

یہ نعرے بازی چند لمحوں تک جاری رہی تھی جس کے بعد مریم نواز اور دیگر افراد مزار کے احاطے سے باہر نکل گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سندھ حکومت کی ہدایت پر نہیں ہوئی، سعید غنی

بعدازاں اگلے روز علی الصبح مریم نواز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ ’پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا‘۔

پولیس کی جانب سے یہ گرفتاری بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے تقدس کو پامال کرنے کے الزام میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد سامنے آئی تھی۔

کراچی کے ضلع شرقی کے پولیس تھانہ بریگیڈ میں وقاص احمد نامی شخص کی مدعیت میں مزار قائد کے تقدس کی پامالی اور قبر کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

مذکورہ مقدمہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 نامعلوم افراد کے خلاف قائداعظم مزار پروٹیکشن اینڈ مینٹیننس آرڈیننس 1971 کی دفعات 6، 8 اور 10 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506-بی کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں مدعی نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر اور ان کے 200 ساتھیوں نے مزار قائد کا تقدس پامال، قبر کی بے حرمتی، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی۔

بعدازاں عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر کو ضمانت پر رہا کردیا تھا اور وہ مریم نواز کے ہمراہ واپس لاہور روانہ ہوگئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024